ماسکو: (شاہد گھمن ) 27 اکتوبر کا دن کشمیر کی تاریخ میں ایک تلخ موڑ کے طور پر یاد رکھا جائے گا، بھارت نے جب وادی کی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کیا، تو یہ محض قانونی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ لاکھوں کشمیریوں کی امیدوں، خوابوں اور آزادی کی جستجو پر پہرہ بٹھانے کے مترادف تھا۔
اس دن سے وادی میں سیاسی خودمختاری محدود ہوئی، شہری آزادیوں پر قدغنیں لگیں، اور عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی نے ایک نیا المیہ جنم دیا، یہ فیصلہ صرف آئینی نہیں تھا، بلکہ کشمیری عوام کی زندگی کے ہر پہلو میں اثر ڈالنے والا ایک تاریخی دھچکا تھا۔ تعلیم، روزگار، نقل و حمل، مذہبی رسومات، اور سیاسی اظہار، سب کچھ محدود اور قابو میں آ گیا۔ ایک مکمل معاشرتی دباؤ قائم ہوا جس نے نسلوں کو خوفزدہ کیا۔
کشمیر میں موجودہ حالات اب بھی سخت ہیں۔ عوام کی آواز دبی ہوئی ہے، سیاسی قیادت کی سرگرمیاں محدود ہیں، اور انسانی حقوق کے عالمی اصول نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ نوجوان، خواتین، اور معصوم بچے سب اس تبدیلی کے اثرات سے گزرتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں سڑکوں پر فوجی چوکیوں، ہڑتالوں، اور کرفیو کا جبرعام ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں قید ہیں، تعلیم کے مواقع کم ہیں، اور ہر لمحہ خوف کی کیفیت برقرار ہے۔
یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو صرف جسمانی نہیں، بلکہ روحانی اور معاشرتی بھی ہے۔ کشمیری عوام کی صبر و تحمل کی داستان آج بھی دنیا کے سامنے ایک انسانی المیہ کے طور پر موجود ہے، اسی صورتحال کے پیش نظر، کشمیر الائنس فورم ماسکو نے عالمی سطح پر کشمیر کی آواز بلند کرنے کے لیے اب تک تقریباً دس آن لائن کانفرنسز منعقد کی ہیں۔
ان کانفرنسز کی میزبانی راقم الحروف نے خود کی، تاکہ دنیا کے مختلف حصوں میں موجود لوگوں کو کشمیر کے حقیقی حالات سے آگاہ کیا جا سکے، ان فورمز میں انسانی حقوق کے ماہرین، کشمیری رہنما، پاکستانی صحافی اور بین الاقوامی حاضرین نے شرکت کی۔ ہم نے وادی میں جاری مظالم، عوام کی مشکلات، اور آئینی حیثیت کے خاتمے کے اثرات کو اجاگر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: 78 برسوں سے ظلم و ستم کے شکار کشمیری انصاف کے منتظر
کانفرنسز کے دوران کئی کشمیری رہنمائوں نے وہاں کے حالات بتائے انہوں نے بتایا کہ کس طرح زندگی کے ہر معمولی لمحے میں خوف چھایا ہوا ہے، اور کس طرح امید کی کرن کو ہر روز ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کہانیوں نے حاضرین کو ہلا کر رکھ دیا اور ثابت کیا کہ کشمیر صرف ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور انصاف کا عالمی امتحان بھی ہے۔
27 اکتوبر کے بعد، دنیا نے خاموشی اختیار کی۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے ادارے، اور بین الاقوامی تنظیمیں اس مسئلے پر نظر رکھ رہی ہیں، مگر کشمیری عوام کی آواز کو اب بھی وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ مستحق ہیں، یہ خاموشی عالمی ضمیروں کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ انسانیت کے حق میں کھڑے ہوں یا محض نظریاتی چپ کے پابند رہیں، یہ عالمی خاموشی کشمیری عوام کے صبر اور جدوجہد کی قدر کم نہیں کر سکتی، مگر یہ ضرور دکھاتی ہے کہ دنیا میں انصاف کی عملی حمایت اور حقیقی توجہ کی کتنی کمی ہے۔
کشمیر الائنس فورم ماسکو کی کانفرنسز نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جدوجہد جاری ہے، اور آوازیں دبی نہیں رہ سکتیں، یہ کانفرنسز محض معلوماتی اجلاس نہیں بلکہ ایک تحریک ہیں، جس نے عالمی سطح پر کشمیری عوام کی مشکلات کو اجاگر کیا اور انسانیت کی روشنی میں دنیا کو جگایا۔
ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر کے حق میں ہر فرد، ہر ادارہ، اور ہر حکومت اپنا کردار ادا کرے۔ صرف اسی طرح وادی میں امن، آزادی اور انصاف کی کرنیں دوبارہ چمک سکتی ہیں۔
کشمیری عوام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ امید کبھی مردہ نہیں ہوتی۔ ہر دن کی چھپی ہوئی قربانی، ہر چھوٹی مگر پُراثر احتجاجی کارروائی، ہر گھر میں صبر اور ہر دل میں موجود وفاداری، یہ سب مستقبل کی آزادی کی بنیاد ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر صرف جغرافیہ نہیں، بلکہ انسانیت، امید اور عدل کا امتحان ہے۔
27 اکتوبر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ آزادی محض لفظ نہیں، بلکہ انسانی حقوق، امن اور وقار کی ضمانت ہے، کشمیر کی وادی میں موجود مظالم اور شہریوں کی جدوجہد ہمیں بتاتی ہے کہ آواز اٹھانا، آگاہی پیدا کرنا، اور انسانی ہمدردی کو فروغ دینا اب سب کی ذمہ داری ہے۔
جب میں نے کشمیر الائنس فورم ماسکو کی جانب سے دس کے قریب آن لائن کانفرنسز کی میزبانی کی، تو ہر اجلاس میں ایک ہی چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، کشمیری عوام کی بے مثال صبر و تحمل اور امید کی روشنی، ہر بات، ہر تجربہ، ہر آنکھ کی نمی، اور ہر جذبۂ خدمت نے مجھے یہ باور کرایا کہ کشمیر صرف ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ انسانیت کا آئینہ ہے۔
میں نے محسوس کیا کہ میری محض میزبانی کی ذمہ داری نہیں، بلکہ یہ ایک ذمہ داریِ ضمیر ہے کہ دنیا کو حقیقت سے آگاہ کیا جائے، مظلوم کی آواز کو بلند کیا جائے، اور انسانی ہمدردی کو جگایا جائے۔
یہ تجربہ مجھے یہ سبق دیتا ہے کہ آواز اٹھانا، معلومات پہنچانا، اور انصاف کے حق میں روشنی پھیلانا بھی ایک خدمت ہے، اور اس خدمت میں ہر فرد ایک چراغ بن سکتا ہے جو ظلم کے اندھیروں کو روشن کر دے، میری خواہش ہے کہ یہ آواز صرف ماسکو یا پاکستان تک محدود نہ رہے، بلکہ پوری دنیا میں لوگوں کے دلوں کو جھنجھوڑے، تاکہ کشمیر کی مسکراہٹ دوبارہ واپس لوٹ آئے۔
یہ میرا ذاتی وعدہ اور مشاہدہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں جہاں بھی رہوں، اس آواز کو اجاگر کرنے کی کوشش جاری رکھوں گا، کیونکہ کشمیر کی جدوجہد صرف ایک قوم کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی علامت ہے۔



