مشیات، دہشتگردی اور سیاسی تحفظ

Published On 06 November,2025 11:38 pm

(طارق خان ترین) خیبر ایک ایسا ضلع جہاں ایک طرف سرحد کے پار افغانستان ہے تو دوسری طرف وادی تیراہ کی پُراسرار وادیاں ہیں، یہ وادی ہفتہ وار "گردا میلے" کا منظر پیش کرتی ہے، جہاں خام چرس، اور دیگر مہلک منشیات کی کھلی مرچنٹنگ ہوتی ہے، یہ غیر قانونی بازار اس قدر سرگرم ہے کہ ہر طرف اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے، مگر حیرت انگیز طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں نظر نہیں آتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ دھندہ کون چلا رہا ہے؟ کس کی چھتری تلے یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان دنیا بھر کی 80 فیصد منشیات پیدا کرتا ہے۔ یہ ملک ایک درجن سے زائد بڑی دہشت گرد تنظیموں کا گڑھ بھی ہے، جن میں القاعدہ، داعش، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسی عالمی سطح پر ممنوعہ تنظیمیں شامل ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ افغانستان دہشت گردی اور منشیات دونوں برآمد کرتا ہے اور اس برآمد کا سب سے بڑا ہدف پاکستان ہے، افغانستان سے پاکستان میں منشیات اور دہشت گردوں کی درآمد کے جن راستوں کا استعمال کیا جاتا ہے، ان میں وادی تیراہ سر فہرست ہے۔ ستوبی، ناذیہ بانڈہ، رجگال کوکی خیل، اور سپن غر مورگاہ جیسے انٹری پوائنٹس کے ذریعے یہ زہر باقاعدہ طور پر پاکستان میں داخل کیا جاتا ہے۔

معاملہ محض چند مجرموں تک محدود نہیں، درحقیقت یہ پورا کاروبار جرائم پیشہ گروہوں اور سیاسی حلقوں کے گٹھ جوڑ سے چل رہا ہے، یہ محض ایک غیر قانونی دھندہ نہیں، بلکہ ایک ایسا زہر ہے جو پاکستان کے نوجوانوں کے خوابوں اور امیدوں کو نگل رہا ہے۔ یہ منڈیاں آج بھی موجود ہیں، مگر عام شہریوں کے لیے اس علاقے میں جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ضلع خیبر میں صرف ایک سال میں بارہ ہزار ایکڑ رقبے پر بھنگ/چرس کی کاشت رپورٹ ہوئی۔ اندازہ ہے کہ فی ایکڑ سے پچیس سے تیس لاکھ روپے کی غیر قانونی آمدنی ہوتی ہے، جس سے خطے کی 75 فیصد آبادی مستفید ہو رہی ہے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ صرف اس سال آٹھ ارب روپے سے زائد کی منشیاتی فصل ہمارے نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس غیر قانونی معیشت سے دہشت گرد، سمگلر اور سیاسی شخصیات اپنا حصہ وصول کرتی ہیں۔

وادی تیراہ درحقیقت وہ دروازہ ہے جہاں سے چرس پاکستان میں درآمد ہوتی ہے، یہاں کی مقامی پیداوار میں افغانستان کا مال ملا کر پورے ملک میں سپلائی کا جال بچھایا جاتا ہے، مشیات کی اس کھلی سپلائی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ ستر لاکھ افراد نشے کی لعنت میں مبتلا ہیں، تیراہ کے حالیہ فضائی مناظر میں صاف نظر آتا ہے کہ اربوں روپے مالیت کی چرس کو خشک کیا جا رہا ہے، جو آنے والے دنوں میں منڈیوں میں فروخت کے لیے پیش کی جائے گی۔

"عشر" کے نام پر وادی تیراہ میں بھتہ وصولی کا ایک وسیع نیٹ ورک بھی فعال ہے، خوارجی (دہشت گرد) گروہ اس کاروبار کو "سکیورٹی" فراہم کرنے کے نام پر کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں، یہ رقم کا ایک حصہ افغانستان کے شہروں کندھار اور کابل میں موجود دہشت گردوں تک بھی پہنچایا جاتا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ منشیات کا یہ کاروبار بین الاقوامی دہشت گردی کو مالیاتی مدد فراہم کر رہا ہے۔

باڑہ کا "کارخانوں بازار" پاکستان میں سمگل شدہ سامان کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان سے اسمگل ہونے والا کپڑا، الیکٹرانکس سامان، اسلحہ اور چرس یہاں عام دستیاب ہے، یہی غیر قانونی آمدنی دہشت گرد گروہوں تک پہنچتی ہے ۔

یہی گروہ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کو "کولیٹرل ڈیمیج" کا نام دیتے ہیں اور انسانی حقوق کے نام پر بین الاقوامی برادری سے ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں، جب پاک فوج اور دیگر ادارے ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو کچھ آوازیں "آپریشن" کے خلاف اٹھتی ہیں، سوال یہ ہے کہ آخر ان آپریشنز کی مخالفت کیوں؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا پھر مفادات کا ٹکراؤ؟

تیراہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں اب تک 514 آپریشنز کیے جا چکے ہیں، جن میں 70 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں، ان کارروائیوں میں 49 افراد شہید ہوئے ہیں، جن میں پاک فوج، فرنٹیئر کور (ایف سی)، پولیس اور عام شہری شامل ہیں، شہداء کی اس بڑی تعداد اس بات کی غماز ہے کہ دشمن کو مقامی سطح پر گٹھ جوڑ اور سہولت کار میسر ہیں، یہ لوگ نہ صرف عوام کو فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکاتے ہیں، بلکہ دہشت گردوں کو پناہ اور سہولیات فراہم کر کے اپنے غیر قانونی مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔

نارکوٹکس، چرس اور کالے دھن کے اس گورکھ دھندے کو چلانے والے جب سیاسی اثر و رسوخ حاصل کر لیتے ہیں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے لگتے ہیں، تو سکیورٹی اداروں کے پاس کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا، یہ دھندہ بند ہونا چاہیے۔ بحیثیت قوم ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا: کیا ہم یہ سب کچھ قبول کر لیں گے؟ اگر ہاں، تو پھر دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ یہ کھیل اب رکنا ہوگا، ورنہ یہ زہر صرف زمین میں نہیں، بلکہ ہماری نسلوں میں اتر جائے گا۔

یہ کاروبار صرف چرس تک محدود نہیں، یہ درحقیقت ضمیر کی تجارت ہے۔ اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی تقدیر ان دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں یا ان سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اس زہر کے خلاف اجتماعی آواز بلند کی جائے اور قوم کی بقا کے لیے اس لعنت کے خاتمے کے لیے ہر سطح پر اقدامات کیے جائیں۔