پاکستانی معاشرہ میں اتحاد کی ضرورت!

Published On 07 November,2025 10:30 am

لاہور: (مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان) اسلام دین فطرت ہے اور فطری چیز زمانے کے بدلنے سے بدلا نہیں کرتی، بلکہ وہ ہمیشہ رہتی ہے، اسلام فطرتِ انسانی الفت ومحبت کا نام ہے، اسلام کی دعوت و تعلیم کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان منظم، فعال و متحرک اورمتحد ہو کر اس کی اقامت و اشاعت کا فریضہ انجام دے، اس لئے یہ ہمیشہ اتحاد کی طرف بلاتا ہے۔

حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرم دلی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے، جب اس جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے اور اس کی ساری رات بیداری اور بخار میں گزرتی ہے۔(صحیح بخاری: 6011)۔

حضرت ابو موسیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: یقیناً مومن آپس میں مضبوط بنیاد کی طرح ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر مضبوط ہوتے ہیں اور نبی کریمﷺ نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا (صحیح بخاری: 481)۔

مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں ایک بنیاد کی طرح ہیں، یعنی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑ کر رہنا چاہیے جس طرح ایک دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں، اسی طرح ایک مسلمان، دوسرے مسلمان سے مل کر ہی سیسہ پلائی دیوار بنتا ہے، اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنی قوت نہ سمجھے اور اسے ضائع ہونے کیلئے چھوڑ دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنی کمزوری کا سامان کر رہا ہے۔

حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کے سرمیں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے (صحیح مسلم:2586)۔

انسانی اعضاء کی جسم کیلئے اہمیت و ا فادیت آشکار ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنا کام صحیح طریقہ سے نہ کر پائے تو انسانی وجود بمع معاشرتی زندگی کس قدر مجبور اور بے بس ہو جاتا ہے، اگرچہ انسانی وجود کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہر عضو کا اپنا الگ الگ کام ہے پھر بھی ان میں کامل ہم آہنگی اور اتحاد پایا جاتا ہے، اگر وجود کا یہ باہمی اتحاد نہ ہوتا تو انسانی زندگی کا تصور محال تھا، مثلاً دانت میں درد ہو تو درد کیلئے پاؤں چل کر جاتے ہیں، آنکھیں آنسو بہاتی ہے، زبان اسے بیان کرتی ہے، دل و دماغ اسے محسوس کرتے ہیں، ہاتھ دوا پلانے میں مددگار ہوتے ہیں، اگر ان اعضاء میں یہ مقابلہ آرائی شروع ہو جائے کہ کون قیمتی، کون اعلیٰ وافضل، اس کو تکلیف ہے مجھے نہیں، تو واضح بات ہے کہ پورے جسم میں خرابی اور بے چینی کا عنصر پیدا ہو جائے گا۔

باہمی محبت اور اتحاد امت

باہمی محبت سے اتحاد اور یکجہتی کی فضا قائم کی جا سکتی ہے، حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : اے لوگو! سنو، سمجھو اور معلوم کر لو کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہداء لیکن نبی اور شہید ان کے مراتب اور اللہ کے ہاں تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے۔

ایک بدوی نے اللہ کے رسولﷺ کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: یا رسول اللہﷺ! جو لوگ نہ نبی ہوں اور نہ شہید لیکن انبیاء اور شہداء ان کی مسند اور اللہ کے تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے، ان کی خوبی اور ان کا حلیہ ہمارے سامنے بیان فرما دیجیے، آپﷺ نے فرمایا : یہ لوگ وہ ہیں جو مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں ہے، لیکن وہ اللہ کیلئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیرخواہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کیلئے قیامت کے دن نور کے منبر لگائے گا، وہ ان پر بیٹھیں گے اور ان کے چہرے اور کپڑے پُر نور بنا دے گا، (باقی) لوگ گھبرائیں گے (لیکن) یہ نہیں گھبرائیں گے، یہی اولیاء اللہ ہیں جنہیں نہ کوئی خوف ہو گا نہ غم (مسنداحمد: 22957)۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت میں یاقوت کے ستون ہیں، ان پر زبرجد کے بالاخانے ہیں، وہ ایسے روشن ہیں جیسے چمکدار ستارے، لوگوں نے عرض کی، یا رسول اللہﷺ! ان میں کون رہے گا؟ فرمایا: ’’وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کیلئے آپس میں محبت رکھتے ہیں، ایک جگہ بیٹھتے ہیں، آپس میں ملتے ہیں۔(شعب الایمان: 9002)

نبی کریمﷺ کی واضح تعلیمات میں سے یہ ہے کہ بھائی بھائی بن کر رہو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچاؤ، ایک دوسرے سے بغض وکینہ نہ رکھا کرو، آپس میں بے تعلق اور منہ پھیر کر نہ رہو، سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہو بھائی بھائی بن کر رہو اور مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا، نہ اسے ذلیل و حقیرسمجھتا ہے اور نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے، دیکھو! تقویٰ کی جگہ یہ ہے، آپﷺ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے تین بار یہ بات فرمائی، پھر فرمایا: ’’آدمی کے برا ہونے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ (صحیح ترمذی:1927)

اخوت اسلامی اور اتحاد امت

ایمانی بھائی چارہ کیلئے سرحدیں رکاوٹ نہیں بنتیں، نبی کریمﷺ نے تمام مسلمانوں کو ایک متحدہ اُمت بنایا جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر مضبوط اور طاقتور بنتے ہیں، ایمانی بھاری چارہ کو قائم رکھنے کی اہمیت نماز اور روزہ سے بھی بڑھ کر ہے۔

حضرت ابودرداؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو روزوں اور صدقہ وخیرات اور نماز سے بھی افضل ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں، آپﷺ نے فرمایا: وہ عمل باہمی تعلقات کی اصلاح ہے، تعلقات کا فساد صفایا کر دینے والی چیز ہے (جامع ترمذی :2509)، نبی محتشمﷺنے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی درستگی کو بنیادی ارکان اسلام سے بھی افضل قرار دیا اور وجہ یہ بیان کی کہ باہمی بگاڑ و اختلاف، پورے دین کو اکھاڑ دینے والی چیز ہے، آپس کی نفرت و عداوت اور بغض وکینہ دین پر غالب آ کر مسلم اُمت کی ایک ایک چیز پر قبضہ جما لیتی ہے اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔

علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: مسلمان کو دنیاوی امور، اغراض باطلہ، بغض، حسد اور عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے اختلاف نہ رکھنا چاہیے اور تفرقہ میں نہیں بٹنا چاہیے، مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جب بھی مسلمان تفرقہ کا شکار ہوئے عنان حکومت ان کے ہاتھ سے جاتی رہی، یا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے یا غیر قوموں کے محکوم اور غلام بن گئے۔

اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی لیکن آپس کی تفرقہ کی وجہ سے عیسائیوں نے پورے سپین پر قبضہ کر لیا، بغداد میں اسی تفرقہ بازی اور شیعہ سنی اختلاف کی وجہ سے مسلمان کمزور ہوئے اور ہلاکو کے ہاتھوں مسلمانوں کی ذلت کی ایک تاریخ لکھی گئی، ہندوستان میں مسلمانوں نے کئی صدیوں تک حکومت کی لیکن جب مسلمان طوائف الملوکی کا شکار ہوئے تو انگریزوں کی غلامی ان کا مقدر بن گئی (تبیان القرآن، ج2، ص292 )۔

باہمی اتحاد اور قرآن مجید

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ(آل عمران: 103)۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متحد ہونے کا حکم دیا اور وہ مستحکم بنیاد مقرر فرمائی جس سے محکم تر کوئی اور بنیاد نہیں ہو سکتی، قرآن کریم پر عمل کرنے کیلئے اس کا صحیح سمجھنا ضروری ہے، علامہ قرطبی نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اعتقادا اور عملاً کتاب وسنت کی رسی مضبوطی سے پکڑ لیں، ہمارے اتحاد کا صرف یہی سبب ہے اور صرف اسی طرح اتفاق و اتحاد کی نعمت میسر آسکتی ہے، جس سے ہمارے حالات سنور سکتے ہیں۔ (ضیاء القرآن، ج1، ص 709)

اتحادِ امت اور موجودہ دور کا تناظر

آج پاکستانی معاشرے میں اتحادِ امت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، فرقہ واریت، لسانیت، سیاسی تقسیم اور مفاد پرستی نے اُمت کے چہرے پر بدنما داغ لگا دیئے ہیں، ہر طبقہ اپنے گروہی مفاد کو اسلام کے اجتماعی مفاد پر ترجیح دے رہا ہے، نتیجتاً ہم بطورِ امت کمزور اور غیر مستحکم ہو چکے ہیں۔

قرآنِ کریم ہمیں متنبہ کرتا ہے: ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو، ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جاؤ گے اور (دشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائے گی‘‘(الانفال:46)، یہی وہ آیت ہے جو آج کے حالات پر صادق آتی ہے، پاکستان کا معاشرتی ڈھانچہ اسی وقت مضبوط ہو سکتا ہے جب اس میں دینی و قومی وحدت، مسلکی رواداری، سماجی انصاف اور تعلیمی شعور کی فضا قائم ہو۔

علماء، دانشور، تعلیمی ادارے اور ذرائع ابلاغ سب کو اتحاد و ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، مدارس و جامعات کے مابین علمی تعاون، مساجد کے ذریعے فکری بیداری اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے محبت، برداشت اور خیر خواہی کا پیغام پھیلانا یہی قومی بقا کا راز ہے۔

مذکورہ بالا آیات و احادیث اور تصریحات آئمہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو آپسی معاملات باہمی اتحاد و یگانگت سے حل کرنے چاہیے اور دشمن کا مقابلہ بھی امت کے اتحادسے ہی کیا جا سکتا ہے۔

اتحاد امت کے ثمرات

اُمت کے باہمی اتحاد سے حسب ذیل فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔

متحدہ قومیں مضبوط ہوتی ہیں: جن قوموں میں اتحاد ہوتا ہے، وہ مضبوط ہوتی ہیں، اتحاد کی بنا پر کسی بھی ملک کو دیگر ممالک کے مابین تصادم سے بچایا جا سکتا ہے۔

مشترکہ مسائل کا حل: اُمت کا باہمی اتحاد مشترکہ مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے، مثلاً اگر کئی ممالک مشترکہ امن اور ترقی کیلئے مل کر کام کریں تو یہ امکان ہوتا ہے کہ وہ مختلف مسائل جیسے تعلیم، صحت اور تجارت کو بہتری سے حل کر سکتے ہیں۔

تاریخی اور ثقافتی وابستگی: اتحاد اُمت تاریخی اور ثقافتی وابستگیوں کو بھی مضبوط بناتا ہے، ایسا اتحاد طویل مدت تک امتوں کے درمیان دوستی اور تعلقات کو بڑھا سکتا ہے۔

اقتصادی ترقی: اگر اُمت متحد ہوتی ہے تو اس کا باہمی اتحاد اقتصادی تعاون کو بڑھاتا ہے، مختلف ممالک کے درمیان تجارت اور تعاون سے امت کو اقتصادی بنیادیں ملتی ہیں۔

ریاستی استحکام: اتحاد امت ریاستی استحکام کو بڑھا سکتا ہے اور ملکی ترقی میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔

سماجی اور علمی تبادلہ: سماجی ہم آہنگی اور باہم فکری ونظری تبادلہ اُمت کے اتحاد کو ترقی کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔