اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) بانی پی ٹی آئی کے اہلِ خانہ اور پارٹی رہنماؤں کو ان سے ملاقات کی اجازت دیئے جانے کا مطالبہ لے کر پاکستان تحریک انصاف نے ایک بار پھر اپنے اراکین اسمبلی اور کارکنان کو منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ اور اڈیالہ جیل کے باہر اکٹھا ہونے کی کال دی تھی۔
نومبر کے آغاز سے بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں کی اجازت نہ ملنے کے بعد سے اُن کی صحت کے حوالے سے افواہیں زوروں پر رہیں، جن کو پھیلانے میں سوشل میڈیا کے عناصر کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا کا کردار بھی دکھائی دیا، راولپنڈی انتظامیہ کی جانب سے پی ٹی آئی کی کال کے بعد تین روز کیلئے شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی جبکہ وفاقی دارالحکومت میں پہلے سے ہی عوامی اجتماعات پر دو ماہ کیلئے پابندی ہے۔
پی ٹی آئی کے اعلان کے بعد دونوں شہروں میں سکیورٹی انتظامات بھی سخت کر دیئے گئے تھے، احتجاج کا اعلان وزیر داخلہ خیبر پختو نخوا سہیل آفریدی نے گزشتہ جمعرات کو اڈیالہ جیل کے باہر دیئے گئے دھرنے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں خود بھی کیا تھا تاہم منگل کی صبح وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر موجود تھے نہ ہی اڈیالہ جیل کے باہر ہونے والے احتجاج میں پہنچے، وہ کیوں نہ پہنچ سکے اس حوالے سے ان کی یا پارٹی کی جانب سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر، لطیف کھوسہ، علی ظفر، ایڈووکیٹ سہیل سلطان اور کے پی اسمبلی کے چند اراکین سمیت تین سے چار درجن افراد جمع ہوئے، بیرسٹر گوہر کی قیادت میں وفد نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے سیکرٹری سے ملاقات کی، وفد نے بانی پی ٹی آئی سے متعلق زیرالتوا مقدمات اور جیل ملاقات میں رکاوٹوں سے متعلق توہینِ عدالت کیس کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی جس کے بعد پی ٹی آئی رہنما اور کارکن اسلام آباد ہائیکورٹ سے پر امن طور پر روانہ ہوگئے۔
دن کے وقت پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی، بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور کارکن اڈیالہ جیل کے باہر جمع ہوئے، اڈیالہ جیل کے باہر جس تعداد میں کارکنوں کی آمد کی توقع تھی وہ تو پوری نہ ہو سکی، لگ یوں رہا تھا کہ پارٹی کے رہنما ہوں یا کارکن، پارٹی کی ٹکراؤ اور احتجاج کی پالیسی سے تھک سے گئے ہیں، تاہم اڈیالہ آنے والے رہنماؤں اور کارکنان نے تمام دن میدان ضرور سجائے رکھا۔ پولیس نے گورکھ پور کے مقام پر کارکنان کو روکا لیکن وہ جیل کے سامنے فیکٹری ناکے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
اس موقع پر حکومت مخالف نعرہ بازی بھی ہوتی رہی، منگل کا دن بانی سے ملاقاتوں کا دن بھی ہے، اس مناسبت سے ملاقاتیوں کی فہرست بھی جیل انتظامیہ کو پہلے سے بجھوائی گئی تھی، تاہم جیل انتظامیہ کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان کو ملاقات کی اجازت دی گئی جنہوں نے کچھ پس و پیش کے بعد اکیلے ہی جا کر بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اور واپس آ کر انہوں نے بانی پی ٹی آئی کی صحت کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں کی تردید کی اوربتایا کہ وہ مکمل طور پر صحت مند اور فٹ ہیں تاہم قید تنہائی کی وجہ سے کچھ پریشان ضرور ہیں۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں ملاقاتوں پر پابندی سمیت دیگر معاملات کے حوالے سے ایک بار پھر مقتدرہ پر الزامات لگائے، ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے شاہد خٹک کو پارلیمانی لیڈر مقرر کیا ہے جبکہ انہوں نے تحریک چلانے کی ذمہ داری محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس کو سونپی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کیلئے پیغام دیا کہ بانی پی ٹی آئی نے انہیں فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا کہا ہے، لیکن کیا سہیل آفریدی ان توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟ اس حوالے سے کافی متضاد آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے طور پر سہیل آفریدی کے تقرر کے بعد سے پارٹی کے جذباتی کارکن ان سے تحریک کو تیز کرنے کے حوالے سے توقعات کا اظہار کرتے رہے ہیں، اس حوالے سے انہیں مبینہ طور پر سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے حمایتیوں کی جانب سے بھی تنقید اور دباؤ کا سامنا ہے، تاہم اب کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ سہیل آفریدی ٹکراؤ کی سیاست سے اجتناب چاہتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات نے پہلے ہی پارٹی کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس سے نہ صرف پارٹی کمزور ہوئی ہے بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں گورننس کو بھی نقصان پہنچا ہے، وہ این ایف سی ایوارڈ سمیت دیگر اہم ایشوز پر بھی صوبے کے مفادات کیلئے پوری توجہ مرکوز کرنے کے حق میں ہیں۔
دوسری طرف پارٹی کا بنیاد پرست ٹولہ جو ٹکراؤ کی سیاست کو پارٹی کی مقبولیت کا باعث گردانتا ہے، کے نزدیک بانی کی رہائی کا ہدف حکومت پر دباؤ بڑھائے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں، پارٹی میں موجود ان متضاد سوچوں سے سہیل آفریدی کس طرح عہدہ برآ ہو پائیں گے اور کیا وہ کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کر پائیں گے جس سے وہ پارٹی کے تمام حلقوں کو جوڑے رکھنے میں کامیاب رہیں؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
اگر پارٹی قیادت ان سے فرنٹ فٹ پر کھیلنے ہی کی توقع کر رہی ہے تو پھر ان کا اصل امتحان شروع ہونے میں زیادہ وقت باقی نہیں، ایسے میں دیکھنا یہ ہوگا کہ بیرونی مخالفت ان کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہوگی یا پارٹی کا اندرونی دباؤ؟ تجزیہ کاروں کے مطابق پارٹی کی احتجاجی تحریک کا دم خم تو وقت کے ساتھ مسلسل گھٹتا دکھائی دے رہا ہے۔
ملک میں ایک اور بحث چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن کے حوالے سے جاری ہے، اور نوٹیفکیشن میں ہونے والی تاخیر اس بحث کا باعث ہے، جس کیلئے توقع کی جا رہی تھی کہ دسمبر سے قبل یہ عمل مکمل کر لیا جائے گا۔
اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے وضاحت جاری کی جا چکی، انہوں نے ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ اس معاملے میں غیر ضروری بحث نہ کی جائے، اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں ہے، وزیر اعظم کی وطن واپسی پر یہ عمل مکمل کر لیا جائے گا، اس کا آغاز پہلے ہی کیا جا چکا ہے، اس بحث کی ضرورت تو خیر کبھی بھی نہیں تھی لیکن کیا کیا جائے کہ کچھ عناصر ہمیشہ خواہش کو خبر بنانے پر تلے رہتے ہیں۔



