زمین کا ایک اور چاند بھی ہے!

Published On 21 September,2025 12:27 pm

لاہور: (اسد بخاری) گزشتہ ساڑھے 4 ارب سال سے ہماری زمین کا ایک قابلِ اعتماد فلکی ساتھی موجود ہے، جسے ہم چاند کہتے ہیں، زمین کے گرد اس کا مدار ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، جو مدوجزر کو متاثر کرنے سے لے کر ہمارے موسموں کو مستحکم رکھنے تک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ماہرین فلکیات نے گزشتہ دنوں ایک حیران کن انکشاف کیا ہے کہ زمین کے ساتھ ایک اور خلائی جسم، جسے   جزوی چاند‘‘ (Quasi Moon) کہا جا رہا ہے، کئی دہائیوں سے خاموشی سے ہماری زمین کے گرد گردش کر رہا ہے، یہ دریافت نہ صرف سائنسی حلقوں میں تجسس کا باعث بنی ہے بلکہ عام عوام کی دلچسپی بھی اس غیر معمولی خلائی مظہر کی جانب مبذول ہوگئی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ جزوی چاند زمین کے مدار میں باقاعدہ قید نہیں ہے بلکہ سورج کے گرد چکر کاٹتے ہوئے بیک وقت زمین کے ساتھ بھی مخصوص انداز میں حرکت کرتا ہے، جو اسے ایک منفرد فلکیاتی شے بناتا ہے۔

ہوائی میں واقع   پین سٹارز‘‘ (Pan STARRS) رصدگاہ کے ماہرین نے اس نئے خلائی جسم کو   2025 PN7‘‘ کا نام دیا ہے، تحقیق کے مطابق یہ شہابی پتھر (asteroid) 1960 کی دہائی سے زمین کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے، تاہم زمین کے گرد نہیں بلکہ سورج کے گرد ایک ایسی مداری راہ پر گردش کر رہا ہے جو زمین کے مدار سے مشابہت رکھتی ہے۔

ماہرین نے اس شہابیے کے مداری اعداد و شمار کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے، جس سے پتا چلا کہ اس کا قطر صرف 19 میٹر (62 فٹ) ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ تقریباً 60 سال سے جزوی مداری راستے (Quasi Orbit) پر موجود ہے اور امکان ہے کہ مزید 60 سال تک زمین کے قریب رہے گا، اس کے بعد اپنی راہ پر آگے بڑھ جائے گا۔

یہ شہابی پتھر زمین جیسی مداری راہ پر موجود چھ دیگر جزوی چاندوں میں شامل ہوگیا ہے، لیکن اسے اب تک دریافت ہونے والے سب سے چھوٹے اور کم مستحکم جزوی چاند کا درجہ دیا جا رہا ہے۔

ماہرین فلکیات کو جزوی سیارچے یا جزوی چاند کے وجود کا علم 1991ء میں ہوا تھا جب انہوں نے پہلی بار   1991 VG‘‘ دریافت کیا، اس وقت کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ یہ شاید کسی غیر زمینی مخلوق کا بھیجا گیا مشن ہو سکتا ہے، تاہم محققین کے مطابق اب تین دہائیاں گزرنے کے بعد یہ بات وسیع طور پر تسلیم کر لی گئی ہے کہ ایسے خلائی اجسام قدرتی طور پر وجود رکھتے ہیں اور سورج کے گرد زمین چاند نظام کے دائرے میں موجود ایک ثانوی شہابی پٹی (Secondry Asteroid Belt) کا حصہ ہیں۔

یہ نیا جزوی چاند عام چاند کی طرح عام آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا بلکہ صرف طاقتور دوربینوں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے، اگرچہ بظاہر یہ زمین کے گرد چکر کاٹتا محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ زمین کے کشش ثقل کے دائرے میں بندھا ہوا نہیں ہے۔

یہ جزوی چاند ایک خاص قسم کے خلائی اجسام   ارجوناس‘‘ (Arjunas) سے تعلق رکھتے ہیں جو سورج کے گرد زمین کے سفر کے ساتھ ہم آہنگی سے حرکت کرتے ہیں، ماہرین کے مطابق   2025 PN7‘‘ زمین سے تقریباً 2.8 ملین میل (4.5 ملین کلومیٹر) سے لے کر 37 ملین میل (59 ملین کلومیٹر) تک کے فاصلے پر مختلف اوقات میں پایا جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف میڈرڈ سے تعلق رکھنے والے محقق کارلوس دے لا فوینتے مارکوس (Carlos de la Fuente Marcos) نے   لائیو سائنس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمین جیسے مدار پر موجود یہ جزوی چاند   حیرتوں سے بھرے ہوئے ہیں‘‘۔

ماہرین کے مطابق یہ نیا جزوی چاند بہت چھوٹا، مدھم اور زمین سے اس کے نظر آنے کے مواقع بھی انتہائی محدود ہیں، اسی لیے حیرت کی بات نہیں کہ یہ اتنے عرصے تک ہماری نگاہوں سے اوجھل رہا، چلی میں قائم   ویرا سی روبن رصدگاہ‘‘ (Vera C Rubin Observatory) حال ہی میں فعال ہوئی ہے اور اس میں ایسی جدید صلاحیتیں موجود ہیں جو مزید جزوی چاندوں کی تلاش میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، ماہرین کو امید ہے کہ یہ رصدگاہ مستقبل میں مزید کئی   جزوی چاندوں‘‘ کو دریافت کر سکتی ہے۔

ماہرین فلکیات کی اس تازہ دریافت کو حال ہی میں   ریسرچ نوٹس آف دی اے اے ایس‘‘ (Research Notes Of The AAS) میں شائع کیا گیا ہے، ماہرین کے مطابق زمین کے قریب صرف جزوی چاند ہی نہیں بلکہ کبھی کبھار   منی مونز‘‘ (minimoons) بھی نظر آتے ہیں، یہ وہ اجسام ہوتے ہیں جو کچھ عرصے کیلئے زمین کے گرد مدار میں آ جاتے ہیں، لیکن عارضی طور پر اب تک صرف چار   منی مونز‘‘ دریافت ہوئے ہیں اور فی الحال ان میں سے کوئی بھی زمین کے گرد موجود نہیں ہے۔

  دی پلینیٹری سوسائٹی (The Planetary Society) ‘‘ کے ماہرین کے مطابق   نیم چاند‘‘ اور   منی مونز‘‘ ہمارے خلائی پڑوس کے اجسام ہیں، اور یہ اپنے ماخذ (origin) کے بارے میں معلومات لیے ہوئے ہوتے ہیں۔

ممکن ہے کہ یہ مرکزی شہابی پٹی سے آئے ہوں، چاند پر شہابیے کے ٹکرانے سے پیدا ہوئے ہوں، یا پھر کسی بڑے جسم کے ٹوٹنے سے وجود میں آئے ہوں، سائنس دان ابھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے‘‘۔ ان کے بقول اس سوال کا جواب تلاش کرنا اور یہ جاننا کہ یہ تقریباً چاند نما اجسام کس مادّے سے بنے ہیں، سائنس دانوں کو شہابیوں کے بارے میں مزید جاننے اور ان کے زمین کیلئے ممکنہ خطرات کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

اسد بخاری معروف ڈرامہ نگار اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے معلوماتی و تحقیقی مضامین ملک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔