واشنگٹن: (دنیا نیوز) افغانستان میں تبدیلی کے بعد عالمی برادری سوچ میں پڑ گئی، امریکی اور برطانوی رہنماوں کے درمیان رابطے ہوئے ہیں، گروپ سیون کا ورچوئل اجلاس بلا نے کا فیصلہ کر لیا گیا، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اجلاس 24 اگست کو طلب کر لیا گیا۔
کیا افغان طالبان وعدے نبھائیں گے، مستقبل کا افغانستان کیسا ہو گا، عالمی برادری سر جوڑنے پر مجبور ہو گئی، رہنماؤں نے رابطوں میں مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر زور دیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا، افغانستان کی صورتحال پر دونوں رہنماؤں نے مشترکہ لائحہ عمل کے لئے جی 7ورچوئل اجلاس اگلے ہفتے بلانے پر اتفاق کیا۔
ادھر امریکا کے قومی سلامتی مشیر جیک سلیوان کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے انخلا کا فیصلہ عین قومی مفاد میں کیا، وزیرخارجہ انٹونی بلنکن سےمل کرمعاملات دیکھ رہے ہیں۔ 2001 کے مقابلے میں 2021 میں طالبان کی سوچ ایک جیسی نہیں ہے، طالبان نےایئرپورٹ تک محفوظ راستہ دیا ہے، امریکی اورافغان شہریوں کے انخلا کےٹائم ٹیبل پربات ہورہی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جین ساکی کے مطابق افغانستان سے امریکیوں کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے، اب تک 3200افراد کو نکالا جا چکا ہے۔ گزشتہ روز 13 پروازوں کے ذریعے 1100 امریکیوں کو لایا گیا۔
رائل ائرفورس کا طیارہ بھی افغانستان سے مزید لوگوں کو لے کر انگلینڈ پہنچ گیا، برطانیہ نے امریکا کے ساتھ کام کرنے والے 20ہزار افغانیوں کو بسانے اعلان کیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ پہلے سال 5 ہزار افغانی شہریوں کو برطانیہ میں پناہ دی جائے گی جبکہ جنیوا میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کا خصوی اجلاس 24اگست کو طلب کر لیا گیا۔
برطانیہ نے نیٹو کےساتھ کام کرنےوالے افغانیوں کوپناہ دینے کا اعلان کیا ہے، بورس جانسن نے کہا کہ بیس ہزار افغان شہری مستفید ہوسکیں گے، پہلےسال پانچ ہزار افراد کو برطانیہ میں پناہ دی جائے گی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو مشروط طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ، طاقت کے ذریعے منتخب جمہوری حکومت پر قبضہ کیا گیا، یہ گروپ ایک تسلیم شدہ دہشت گرد تنظیم ہے، بیس سال قبل بھی اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔