لاہور: (دنیا میگزین) بھارت میں انڈین پریمیئر لیگ شروع ہوئی تو پوری دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کو اس میں شامل کیا گیا۔ پاکستان سے شاہد آفریدی ، شعیب اختر، عمران نذیر، انضمام الحق، سہیل تنویر، کچھ عرصہ تک آئی پی ایل کا حصہ رہے لیکن بعد میں پاکستانی کھلاڑیوں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
نوجوان کرکٹرز کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا، عالمی میچوں میں کارکردگی بہتر ہونے کا امکان متحدہ عرب امارات میں کھیلنے سے ہمارے کرکٹرز ہوم گراؤنڈ پر عالمی میچ کھیلنے کے تجربے سے محروم رہے۔
یہ انتہائی افسوسناک بات تھی۔ بہرحال یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ آئی پی ایل نے بھارتی کرکٹ کو بڑا فائدہ پہنچایا۔ بائولنگ میں شاید اتنا فائدہ نہ پہنچا ہو لیکن بلے باز ایک سے بڑھ کر ایک پیدا ہوا۔
آئی پی ایل مسلسل کھیل کر ان کے بلے بازوں کے کھیل میں وہ نکھار پیدا ہوا جسے بیان کرنا مشکل ہے۔ روہت شرما، ویرات کوہلی اور شیکھر دیون جیسے بلے بازوں کی صلاحیتوں کو آئی پی ایل نے نکھارا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی پی ایل کی وجہ سے کرکٹرز کو مالی طور پر بھی بہت فائدہ پہنچا لیکن منتظمین نے بھی بہت مالی فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کی یہ بدنصیبی رہی کہ 2009ء میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد عالمی ٹیموں نے پاکستان آنا بند کر دیا۔
سری لنکا کی ٹیم پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ شکر ہے اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہواتھا۔ بہرحال یہ پاکستان کرکٹ کو نقصان پہنچانے کی ایک بڑی سازش تھی۔ سازش کرنے والے اس حوالے سے کامیاب رہے کہ پاکستان میں کئی برسوں تک کسی غیر ملکی ٹیم نے دورہ نہیں کیا۔
پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ ٹیسٹ اور ایک روزہ میچ دوسرے ممالک میں ہوتے رہے یہ سلسلہ کئی برس تک چلتا رہا۔ متحدہ عرب امارات کی وکٹوں پر کھیل کر پاکستانی کرکٹرز کو صحیح معنوں میں فائدہ نہیں ہوا۔ بہرحال 2016ء میں پاکستان سپر لیگ کا آغاز ہوا اس ٹورنامنٹ کے آغاز کیلئے بہت محنت کی گئی لیکن بات وہیں کی وہیں رہی۔
اس ٹورنامنٹ کے میچز بیرون ملک ہوتے رہے۔ 2020 میں پہلی بار یہ ٹورنامنٹ مکمل طور پر پاکستان میں کھیلا جا رہا ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
اس مقام تک پہنچنے کیلئے کئی برس لگ گئی، پاکستانی حکومتوں کو دوسرے ممالک پر یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستان کھیلوں کے لئے محفوظ ملک ہے۔ اس حوالے سے مختلف حکومتوں کے دور میں وطن عزیز سے دہشت گرد کے خاتمے کیلئے زبردست اقدامات کئے گئے۔
شہری آبادی کے ساتھ ساتھ فوجی افسروں اور اہلکاروں نے بھی بہت قربانیاں دیں۔ دہشت گردوں نے 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے بے شمار پھولوں کو مسل دیا۔ دنیا نے آہستہ آہستہ اس بات پر یقین کرنا شروع کر دیا کہ پاکستان دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کر رہا ہے اور اس کے لئے بہت قربانیاں بھی دے رہا ہے۔
سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کا پاکستان کا دورہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کو یقین ہو چکا ہے کہ پاکستان میں اب امن و امان ہے۔ یقین کامل ہے کہ 2020ء کے کامیاب پی ایس ایل کے انعقاد کے نہایت مثبت اثرات برآمد ہوں گے اور اس کے بعد کرکٹ کھیلنے والی تمام ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں گی۔
پاکستان سپر لیگ کے انعقاد سے ملکی کھلاڑیوں کو تو فائدہ ہو رہا ہے ان کی مالیت حیثیت بھی مستحکم ہو رہی ہے اور ان کے کھیل میں بھی بہتری آ رہی ہے۔ اس ٹورنامنٹ سے فہیم اشرف، شاہین آفریدی، نسیم شاہ، عثمان شنواری، محمد حسنین ، محمد نواز جیسے کھلاڑی ملے ہیں جو مستقبل میں پاکستانی ٹیم کا اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ پاکستانی کرکٹ کیلئے بہت بڑا فائدہ نہیں تواور کیا ہے؟ ان نوجوان کھلاڑیوں کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے اور انہیں یہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ میرٹ ہی سب کچھ ہے اور قومی ٹیم میں مستقل جگہ بنانے کیلئے مسلسل جدوجہد کرنا ہو گی۔
پی ایس ایل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ویون رچرڈز کو ئٹہ گلیڈی ایٹر کے رہبر اور ڈین جونز کراچی کنگز کے ہیڈ کوچ ہیں۔ ڈیرن سیمی جیسا آل رائونڈر پشاور زلمی کا کپتان ہے جبکہ آسٹریلیا کا مایہ ناز آل رائونڈر شین واٹسن کوئٹہ گلیڈیٹر کیلئے کھیل رہا ہے۔
اس دفعہ پاکستانی نژاد جنوبی افریقی بائولر عمران طاہر ملتان سلطان کی طرف سے کھیل رہا ہے جبکہ انگلینڈ ٹیم کے آل راوئنڈر معین علی بھی پی ایس ایل کا حصہ ہیں۔
پی ایس ایل کی چھ ٹیموں میں کراچی کنگز، کوئٹہ گلیڈیٹر، پشاور زلمی، ملتان سلطان، لاہور قلندر اور اسلام آباد یونائیٹڈ شامل ہیں۔ 2016ء میں اسلام آباد یونائیٹڈ، 2017ء میں پشاور زلمی، 2018ء میں اسلام آباد یونائیٹڈ جبکہ 2019ء میں کوئٹہ گلیڈایٹر نے یہ ٹورنامنٹ جیتا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اسلام آباد یونائیٹڈ نے دو بار پی ایس ایل ٹورنامنٹ جیتا اور دونوں بار اس کے ہیڈ کوچ ڈین جونز تھے لیکن اس دفعہ ڈین جونز کراچی کنگز کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
وہ بھرپور سعی کریں گے کہ اس دفعہ کراچی کنگز اس ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم ہو۔ کوئٹہ گلیڈیٹرز بھرپور فارم میں ہے لیکن یہ بات بھی یاد رکھیے کہ ملتان سلطان میں اس بار چار بڑے کھلاڑی کھیل رہے ہیں جن میں شاہد آفریدی، عمران طاہر، معین علی اور سہیل تنویر شامل ہیں۔ یہ چاروں بڑے تجربہ کار اور منجھے ہوئے کھلاڑیوں ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ملتان سلطان کی ٹیم ان کے تجربے اور قابلیت سے کتنا فائدہ اٹھاتی ہے۔
اب ہم کپتانوں کی بات کرتے ہیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ شاداب خان، کوئٹہ گلیڈیٹرز سرفراز احمد،پشاور زلمی ڈیرن سیمی، ملتان سلطان شان مسعود، لاہور قلندر سہیل اختر، کراچی کنگز عماد وسیم سب سے ز یادہ حیرت شان مسعود کے انتخاب پر ہو رہی ہے۔
شان مسعود ٹیسٹ کے کھلاڑی ہیں وہ ایک روزہ میچوں کے کھلاڑی ہیں اور نہ ہی ٹی ٹونٹی کے، انہیں نہ صرف پی ایس ایل میں شامل کر لیا گیا ہے بلکہ ملتان سلطان کا کپتان بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے کے پیچھے کیا منطق ہے؟ کیا کہانی ہے اور کس کا مشورہ شامل ہے۔ وہ نام سامنے آنے چاہیں۔ اس بار سابق کپتان معین خان کا بیٹا اعظم خان بھی پی ایس ایل کھیل رہا ہے وہ کوئٹہ گلیڈیٹرز کا حصہ ہے جس کے ہیڈ کوچ معین خان ہیں۔
انہوں نے 20 فروری کے پہلے میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ (کوچ مصباح الحق) کے خلاف 59 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی۔ اس لڑکے کے کھیل سے لگتا تھا کہ وہ آگے چل کر مزید اچھا کھیلے گا لیکن صرف ایک اننگز کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی کھلاڑی سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اعظم خان اپنے والد کا نام کتنا روشن کرتا ہے اس دفعہ ویسٹ انڈیز کے براوو کی کمی بہت محسوس ہو گی کیونکہ یہ براوو ہی تھا جس نے کوئٹہ گلیڈیٹرز کیلئے ایک خوبصورت نغمہ تخلیق کیا تھا۔
براوو کے نہ آنے کے کیا اسباب ہیں؟ یہ پی ایس ایل کے منتظمین ہی جانتے ہیں لیکن براوو کے نہ آنے سے کرکٹ شائقین کو خاصی مایوسی ہوئی ہے کیونکہ وہ براوو کے گانا گانے کے انداز اور ڈانس سے بہت محظوظ ہوئے تھے۔
ایک اور مایوسی ابھی تک برقرار ہے اور وہ ہے اے بی ڈی ویلیئرز کا نہ آنا۔ پچھلے برس بھی یہ خبر گرم تھی کہ اے بی ڈی ویلیئرز بھی پی ایس ایل میں شامل ہوں گے لیکن عین وقت پر علم ہوا کہ وہ نہیں آ رہے۔ بہرحال اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہ پی ایس ایل میں شمولیت سے کیوں گریزاں ہیں؟
فخر زمان لاہور قلندر کی طرف سے کھیل رہے ہیں جس کے کپتان سہیل اختر ہیں۔ ان کو کپتان بنانے کا فیصلہ بھی ناقابل فہم ہے، سہیل اختر انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلے۔ ان کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ T20 بہت اچھا کھیلتے ہیں۔ چلئے مان لیا انہیں لاہور قلندر میں شامل کر لیا جاتا تو شاید اتنی حیرانی نہ ہوتی لیکن انہیں نہ صرف شامل کیا گیا بلکہ کپتان بنا دیا گیا اس کی وضاحت کون کرے گا؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو پی ایس ایل کے انعقاد سے کتنا مالی فائدہ ہوا اور اب کتنا منافع ہو گا۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ پی ایس ایل نے پی سی بی کو امیر بنا دیا ہے۔
تبصرہ نگار بھی مسکراتے نظر آتے ہیں جبکہ کرکٹ کے شیدائی بھی شکایت کرتے دکھائی نہیں دیتے جہاں تک فرنچائزز کا تعلق ہے کچھ تو ابھی تک حیران ہیں کہ انہیں کب بریک ملے گا لیکن دوسرے خوش ہیں سب سے بڑی کشش بڑے نام کی موجودگی ہے اور پھر اس کا فارمیٹ (Format) بھی بڑا پرکشش ہے۔ کوئی بھی پی ایس ایل کو مس نہیں کرکنا چاہتا، پی ایس ایل کا پانچواں سیزن شروع ہو چکا ہے۔ اس دفعہ ٹکٹ بھی پہلے کی نسبت زیادہ مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں۔
اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمام ٹورنامنٹ پاکستان میں ہو رہا ہے ٹی وی پر میچ دیکھنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اشتہارات میں بھی بہت اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پی سی بی پی ایس ایل سے سالانہ اڑھائی ارب روپے کما رہا ہے۔
ٹیموں کے نام شہروں کے نام پر ر کھے گئے ہیں اور ان کی ملکیت کارپوریٹ ہائوسز کے پاس ہے یا پھر ان افراد کے پاس جو بہت دولت مند ہیں۔ مالکان کو ٹیمیں بولی کی بنیاد پر الاٹ کی جاتی ہیں۔ ایک دفعہ جب ٹیمیں الاٹ کر دی جاتی ہیں تو پھر پاکستان اور دوسرے ممالک کے کرکٹرز کی نیلامی ہوتی ہے۔
زیادہ سے زیادہ رقم مقرر کر دی جاتی ہے تاکہ بولی کے زیادہ سے زیادہ ثمرات حاصل ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کھلاڑی زیادہ سے زیادہ رقم کے اندر خریدے جائیں اوریہ رقوم تمام ٹیموں کیلئے مقرر کی جائیں تاہم وہ اگلے برس کے لئے کسی بھی کھلاڑی کو جانے کیلئے کہہ سکتی ہیں یا پھر کھلاڑیوں کو اگلے سال کھیلنے کیلئے بھی کہا جا سکتا ہے اس حوالے سے انہیں دوبارہ خریدا جاتا ہے۔
ماہرین کرکٹ کے مطابق پی ایس ایل ملک کی کمزور معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے معاون ثابت ہو گا کیونکہ اس سے پیسہ کمایا جاتا ہے۔ یہ معاشی ترقی کا ٹیج انڈسٹری کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے معاون ثابت ہوتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اس ٹورنامنٹ کے دوران اربوں روپے گردش میں آئیں گے اور حکومت کو کروڑوں کا فائدہ ہو گا۔ ہوٹلوں، ریسٹورانوں، ٹیکسٹائل انڈسٹری ایئر لائنز اور اشتہاری کمپنیاں بے حد منافع کمائیں گی جونہی کرکٹ کے کھلاڑیوں اور ہزاروں شائقین کی آمد ہو گی۔
کھیلوں کا سامان تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بھی خوب منافع ہو گا۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کو قمیضوں، ٹوپیوں اور دوسری چیزوں کی تیاری کے حوالے سے بہت مالی فائدہ ہو گا۔ ان سب کے علاوہ ٹکٹوں کی فروخت سے بھی حکومت کو بہت فائدہ ہو گا۔
پی سی بی اور پی ایس ایل نشریاتی حقوق کی نیلامی کے ذریعے بھی پیسہ کما رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹائٹل سپانسر شپ اور کارپوریٹ سپانسر شپ، ٹکٹوں کی فروخت، فرنچائز حقوق کی نیلامی اور ایمپائر سپانسر شپ سے بھی خاصا پیسہ کمایا جا رہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرنچائز جو اتنی بھاری رقوم خرچ کریں گی۔ ان کی واپسی کیسے ہو گی لیکن ان کی اتنی بھاری سرمایہ کاری کا انہیں کیا فائدہ ہو گا۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کی آمدنی کے ذرائع میں نشریاتی حقوق سے حاصل ہونے والے روپوں سے ان کا حصہ سپانسر شپ سے وصول ہونے والی رقم میں حصہ، ٹکٹوں کی فروخت سے حصہ، سٹیڈیم کے اندر اشتہارات سے ملنے والی رقم، دوسری فرنچائزوں کو کھلاڑیوں کی فروخت اور پھر ان سب کے علاوہ اپنی اور کارپوریٹ سپانسر شپ سے حاصل ہونے والی رقم شامل ہیں۔
پی اس ایل کو حاصل ہونے والی 70 فیصد آمدنی پی سی بی کیلئے مختص کی جاتی ہے جبکہ باقی 30فی صد آمدنی فرنچائزز میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اس وقت پی ایس ایل کی نشریات کے حوالے سے جو معاہدے ہوتے ہیں وہ کروڑوں ڈالروں تک جا پہنچتے ہیں جہاں تک پی سی بی اور ٹیموں کے مالکوں کے درمیان ہونے والوں کا معاہدوں کا تعلق ہے، زیادہ تر پیسہ فرنچائزز کو ملے گا۔ پی ایس ایل کی ہر ٹیم کے اپنے سپانسر ہوں گے بہرحال یہ حقیقت ہے کہ پی ایس ایل کے انعقاد کو نہ صرف پاکستان کرکٹ بلکہ کرکٹ بورڈ کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔
پی ایس ایل کی چھ ٹیموں کے کپتانوں میں سے سب سے زیادہ فائٹر کون ہے؟ اگر سہیل اختر ، ڈیرن سیمی، عماد وسیم، شان مسعود، شاداب خان اور سرفراز احمد کا تقابل کیا جائے تو یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ سرفراز احمد سب سے زیادہ تجربہ کار اور فائٹر کپتان ہیں اور اس کا فائدہ ان کی ٹیم کو ہوگا۔