لاہور: (دنیا نیوز) احمد شاہ ابدالی اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے دور میں تکیے قائم ہوئے، لاہور میں کل 30 تکیے تھے۔ ان تکیوں کا مقصد دوسرے شہروں سے سماجی روابط، کاروبار، اخلاقی رسم ورواج کا تبادلہ اور قومی یکجہتی بھی تھا۔
برصغیر پاک وہند میں کلاسیکی موسیقی کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ ماضی میں کلاسیکی موسیقی کی توقیر تھی اور اسے موسیقی کی بنیاد بھی کہا جاتا ہے۔ بے شمار گلوکار اور گلوکاراﺅں نے کلاسیکل موسیقی میں اپنے نام کا ڈنکا بجایا۔ ماضی میں موسیقی کی ترویج کے لئے ایک مرکز تکیہ مراثیاں بھی تھا جسے ایک انسٹیٹیوٹ کی حیثیت حاصل تھی۔
تقسیم سے قبل اس تاریخی ادارے میں فن موسیقی میں اعلیٰ مقام رکھنے والے فنکار سر تال کی مجالس سجاتے اور نئے فنکاروں کو موسیقی کے رموز واسرار بھی سکھائے جاتے تھے۔ وہاں سجنے والی محافل میں ہر نامی گرامی فنکار اپنے سر بکھیرنے کی حسرت رکھتا تھا۔ اب تکیہ مراثیاں میں کلاسیکل موسیقی کی قدیم روایت کا نام ایک نشان کی حد تک رہ گیا ہے۔ اس کی فنی، ثقافتی اور علمی حیثیت قصہ پارینہ بن چکی ہے۔
پرانے لاہور کی بہت سی قدیم روایات تھیں۔ شہر کے 13 دروازے رات کو بند ہو جایا کرتے تھے اور شام کے بعد کوئی بھی مسافر شہر میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس زمانے میں ہوٹل یا سرائے نام کی کوئی چیزنہیں تھی، لہٰذا ہر دروازے کے باہر ایک تکیہ ضرور ہوا کرتا تھا۔ اسے دارا یا چوپال بھی کہا جاتا تھا۔
ہر تکیہ میں کنواں، غسل خانے، کمرے اور اکھاڑا بنایا جاتا تھا جس میں ایک خدمت گار شخص چوبیس گھنٹے موجو ہوتا۔ تکیے میں آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضح کی ذمہ داری اسی شخص کی تھی۔ ان تکیوں میں معزین شہر پنچایت بھی لگاتے تھے اور دوسرے شہروں سے آنے والے مسافروں کے لئے آرام گاہ تھی۔ احمد شاہ ابدالی اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے ادوار میں بھی تکیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لاہور میں کل 30 تکیے تھے، ان تکیوں کا ایک مقصد دوسرے شہروں سے سماجی روابط، کاروبار، اخلاقی رسم ورواج کا تبادلہ اور قومی یکجہتی بھی تھا۔
قصور لاہور کا قریبی شہر تھا جہاں سے کاروباری افراد گدھا گاڑی اور دوسری سواریوں پر لاہور آتے تھے، دن بھر کام کاج کے بعد رات کو تکیہ میں قیام کرتے تھے۔ ان میں کچھ موسیقی سے وابستہ افراد بھی شامل ہوتے تھے۔ چونکہ معاشرتی تہذیب گانے بجانے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی، لہٰذا لاہور اور قصورسے تعلق رکھنے والے موسیقی سے وابستہ افراد نے مل کر موچی دروازے کے سامنے دائیں طرف چیمبرلین روڈ سے گھاٹی اتر کر دائیں ہاتھ چند قدموں کے فاصلے پر زمین خرید کر تکیہ بنا لیا جو بعد ازاں تکیہ مراثیاں کے نام سے مشہور ہوا۔ جہاں فنکار صبح کی نماز ادا کرنے بعد ریاض، موسیقی اور ساز سیکھنے کا عمل شروع کرتے تھے۔ پھر وہاں موسیقی کی محفلیں سجنے لگیں۔
تکیہ مراثیاں میں برصغیر پاک وہند کے معروف کلاسیکل گائیک اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں جن میں دھرپد گائیک استاد اللہ، بندے خان، ذاکر الدین، پٹیالہ گھرانے کے استاد علی بخش خان جرنیل اور فتح علی خان کرنیل، استاد پیارے خان، استاد علی بخش خان قصور والے، استاد کالے خان قصور والے، استاد بڑے غلام علی خان قصور والے، استاد چھوٹے غلام علی خان قصور والے، استاد برکت علی خان، استاد امانت علی خان عرف مانے خان، استاد اختر حسین خان، استاد میاں قادر بخش طبلہ نواز، دہلی گھرانے کے استاد امراﺅ خان، استاد تارنس خان، استاد امیر خان اندور والے، استاد بکھو خان سارنگی نواز، استاد حیدر بخش خان المعروف فلوسے خان سارنگی نواز، استاد خادم حسین عرف بھوپے خان سارنگی نواز، استاد ناظم علی خان سارنگی نواز، پٹیالہ گھرانے استاد عاشق علی خان، استاد فتح علی خان، استاد بڑے غلام علی خان کے بیٹے استاد منور علی خان، فریدہ خانم اور دوسرے فنکار شامل تھے۔ استاد عاشق علی خان نے اپنی زندگی کی آخری پرفارمنس بھی تکیہ مراثیاں میں پیش کی، ان کی قبر بھی اسی تکیے کے احاطے میں موجود ہے۔