عدلیہ کی تشکیلِ نو کے بعد جوڈیشل ایکٹوازم کا خاتمہ؟

Published On 20 November,2025 11:36 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر دستور کی تشریح کرنے والے ادارے کی تشکیلِ نو ہو چکی ہے، ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم کا باب بند ہو چکا ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان اب صرف سپریم کورٹ ہے اور آئینی نوعیت کے معاملات وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو چکے ہیں۔

سپریم کورٹ اب صرف وہ اپیلیں سُن رہی ہے جس میں آئینی نوعیت کا کوئی سوال نہ ہو، آئینی عدالت کے قیام سے قبل سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے، اعلیٰ عدالتوں سے مزید کچھ استعفے آنے کے امکانات بھی ہیں، جسٹس امین الدین خان نے وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس بننے کے چند گھنٹوں میں آئینی عدالت کو فعال کر دیا، آئینی عدالت کے مقرر ہونے والے ججز میں جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس کے کے آغا، جسٹس روزی خان اور جسٹس ارشد حسین شاہ شامل ہیں۔

وفاقی آئینی عدالت میں تمام صوبوں کو نمائندگی ملنی ہے، آئینی ترمیم ہونے کے بعد صدارتی آرڈر کے ذریعے ججز کی تعداد 13 مقرر کی گئی ہے، مزید چار ججز کا تقرر ہونا باقی ہے۔

وفاقی آئینی عدالت نے پہلا فل کورٹ اجلاس بلا کر سپریم کورٹ کے رُولز کو ہی اپنا لیا ہے، سپریم کورٹ رولز 2025 ہی آئینی عدالت میں نافذ العمل ہوں گے، جب تک آئینی عدالت کے الگ رولز نہیں بنتے سپریم کورٹ کے رولز کو ہی لاگو رکھا جائے گا، آئینی عدالت کا کم سے کم بنچ دو رکنی ہوگا، سپریم کورٹ کا لائسنس رکھنے والے وکلا ہی آئینی عدالت میں دلائل دینے کے مجاز ہوں گے، اپیل میں دو رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کرے گا۔

27 ویں آئینی ترمیم کے بعد اعلیٰ عدالتوں کے امور سے متعلق جوڈیشل باڈیز کی بھی تشکیل ِنو کر دی گئی ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس جمال خان مندوخیل کو شامل کیا گیا ہے جبکہ وفاقی آئینی عدالت کے جسٹس عامر فاروق کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا رکن بنا دیا گیا ہے، یہ دونوں تقرریاں اس لئے اہم ہیں کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل عدلیہ کے احتساب سے متعلق ہے، اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری اور اب ٹرانسفر کے اختیارات بھی جوڈیشل کمیشن کے پاس ہیں جبکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی سپریم کورٹ میں بنچز کی تشکیل اور کیسز مقرر کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی اس کے سربراہ، جسٹس امین الدین خان بطور چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت، وفاقی آئینی عدالت سے جسٹس حسن اظہر رضوی، سپریم کورٹ سے جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس محمد سرفراز ڈوگر شامل ہوں گے، 27 ویں آئینی ترمیم کے بعد تبادلے سے انکار کرنے والے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہوگا اور یہ فورم جج کو سننے کے بعد اس سے متعلق فیصلہ کرے گا۔

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی ہی کریں گے، اس کے ارکان میں جسٹس امین الدین بطور چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر، وفاقی آئینی عدالت کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق، اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، نمائندہ پاکستان بار کونسل احسن بھون، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو، دو ارکان اور سپیکر قومی اسمبلی کا نامزد کردہ مخصوص نشست کا رکن بھی کمیشن کا حصہ ہے۔

وفاقی آئینی عدالت کے قیام، اس کے ججز کے تقرر، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیلِ نو کے بعد اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم کا خاتمہ ہو چکا ہے، ہائیکورٹس کے ججز کے ٹرانسفر کے معاملے میں ہونے والی آئینی ترمیم کے بعد حکومت کو اب کسی بھی ہائیکورٹ سے ماضی جیسی صورتحال کی توقع نہیں ہے، جو لوگ یہ تنقید کر رہے ہیں کہ پہلے 26 ویں اور اب 27 ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کے سٹرکچر میں تبدیلی کر کے اسے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو اس پر حکومت کا کہنا ہے کہ ریاست کے تمام ستونوں کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے مگر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جوڈیشل ایکٹوازم نے ملک کے انتظامی، سیاسی ، اقتصادی حتیٰ کہ سکیورٹی سے متعلق معاملات میں بھی ایسی مداخلت کی کہ ریاست کے امور چلانا کئی مرتبہ ناممکن نظر آیا۔

ماضی میں اعلیٰ عدالتوں سے ایسے فیصلے بھی دیکھنے کو ملے جنہوں نے قانون سازوں اور قانون دانوں کو چکرا کر رکھ دیا، افتخار محمد چودھری کے زمانے میں لئے جانے والے سو موٹو نوٹسز اور پٹیشنز پر ہونے والے فیصلوں نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا، کئی وزرائے اعظم کو ان عدالتوں نے کٹہرے میں کھڑا کیا اور دو کو نا اہل کر کے گھر بھجوایا، اس وقت کی عدالتوں نے نہیں دیکھا کہ عوام کے منتخب کئے ہوئے وزرائے اعظم کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے۔

یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر چند سیکنڈ قید کی سزا سنا کر نا اہل کر دیا گیا جبکہ میاں نواز شریف کو پانامہ کیس میں اقامہ کی تشریح بلیک لاء ڈکشنری سے کرتے ہوئے انہیں نا اہل قرار دے دیا گیا، حساس ترین معاشی معاملات میں سو موٹو لے کر اور آئینی درخواستوں میں ایسے فیصلے سنائے گئے جن کے باعث پاکستان میں سرمایہ کاری اور نجکاری کے منصوبوں کو بڑے دھچکے لگے۔

ناقدین کہتے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت سے متعلق اہم ترین کیس میں وہ ریلیف بھی دیا گیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا، اپریل 2022ء کے بعد خاص طور پر ایسی صورتحال بن گئی کہ عدالتوں میں ہونے والی تقسیم واضح نظر آنے لگی، دیکھا جائے تو حکومت کو 26 ویں اور27 ویں آئینی ترمیم کرنے پر مجبور کیا گیا، اگر اس وقت کئی آئینی شقوں کو بنیاد بنا کر اپنے بھرپور اختیارات استعمال کرنا عدالتوں کا اختیار تھا تو آئین میں ترمیم کر کے کسی بھی ریاستی ادارے کا سٹرکچر تبدیل کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔

27 ویں آئینی ترمیم کے بعد موجودہ حالات میں کسی بھی قسم کی وکلا تحریک چلنے کا بھی کوئی امکان نہیں کیونکہ ملک کی بارز کا ایک بڑا حصہ حکومت کے ساتھ ہے، حکومت کا خیال ہے کہ موجودہ اقدام سے ملک میں ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہوگا۔