گھریلو تشدد ۔۔۔ خاموش مسئلہ یا اجتماعی ناکامی؟

Published On 26 November,2025 11:49 am

لاہور: (مہوش اکرم) گھریلو تشدد اکثر بند دروازوں کے پیچھے پنپتا ہے مگر اس کے اثرات خاندان اور معاشرے تک پھیل جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا گھریلو تشدد صرف ایک خاموش مسئلہ ہے یا اجتماعی ناکامی؟ ہمارے ہاں اکثر گھریلو جھگڑوں کو ’ذاتی معاملہ‘ سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

بیٹیوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ گھرچلاؤ، برداشت کرو، وقت کے ساتھ سب بہتر ہو جائے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ تشدد کبھی خودبخود بہتر نہیں ہوتا، اس کی جڑیں عدم مساوات، طاقت کے غلط استعمال اور سماجی قبولیت میں پیوست ہوتی ہیں، ایک عورت پر تشدد کسی ایک گھر میں ہونے والا مسئلہ نہیں رہتا اس کے نفسیاتی اثرات بچوں کی تربیت، خاندان کے ماحول اور معاشرتی رویوں کو متاثر کرتے ہیں۔

تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایسے گھروں میں پلنے والے بچے بڑے ہو کر اکثر اسی پیٹرن کو دہراتے ہیں یوں تشدد کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر جاری رہتا ہے، گھریلو تشدد صرف مارپیٹ نہیں، عالمی اداروں کے مطابق اس کی کم از کم چار بڑی قسمیں ہیں، جسمانی تشدد، نفسیاتی و جذباتی تشدد، معاشی تشدد، سماجی تشدد۔ ان میں سے کئی صورتیں ایسی ہیں جو ہمارے معاشروں میں تسلیم ہی نہیں کی جاتیں جیسے جذباتی اور معاشی تشدد، نتیجہ یہ کہ خواتین اپنی حالت کو ’’قسمت‘‘ سمجھ کر خاموش رہتی ہیں۔

خاموشی کیوں؟

کئی خواتین خوف، شرمندگی اور بے بسی کی وجہ سے تشدد کے باوجود بولتی نہیں، سماجی بدنامی کا خوف بھی اس میں رکاوٹ بن جاتا ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ خواتین کو یہ پریشانی بھی ہوتی ہے کہ اگر گھر چھوڑ دیا تو بچوں اور اپنے اخراجات کا کیا ہوگا؟ اس کے علاوہ قانونی پیچیدگیاں، تھانہ، کچہری اور وکیل کا طویل اور تھکا دینے والا سفر بھی خواتین کو تشدد کے خلاف کسی اقدام سے روکتا ہے، کئی خواتین کو سکھایا ہی نہیں جاتا کہ وہ عزت اور تحفظ کی حقدار ہیں، یہ خاموشی مسئلے کو مضبوط کرتی ہے اور تشدد کرنے والا مزید طاقتور ہوتا جاتا ہے۔

کیا یہ اجتماعی ناکامی ہے؟

بالکل اور کئی سطحوں پر مثلاً خاندانی سطح پر ناکامی کہ اگر خاندان بیٹی کے ساتھ کھڑا نہ ہو، اسے تحفظ اور مدد نہ دے تو وہ واپس اسی تشدد کے ماحول میں دھکیلی جاتی ہے، خاندان اکثر بدنامی، طلاق یا پڑوسیوں کی باتوں کے ڈر سے حقیقت کو چھپاتا ہے، معاشرتی سطح پر ناکامی اس طرح ہے کہ جب گلی محلے میں مارپیٹ کی آوازیں سن کر بھی لوگ اسے ’’ان کا گھر کا مسئلہ‘‘ سمجھ کر چپ رہیں تو یہ خاموشی ظلم کو تحفظ دیتی ہے، معاشرہ جب تشدد کرنے والے مرد کے نظریات کو ’’مردانگی‘‘ اور عورت کی خاموشی کو ’’اچھائی‘‘ سمجھنے لگتا ہے تو اجتماعی ناکامی اپنی مکمل شکل میں سامنے آتی ہے۔

پاکستان کی صورتحال

پاکستان میں گھریلو تشدد کی شرح کم رپورٹ ہوتی ہے کیونکہ زیادہ تر کیسز منظرعام پر آتے ہی نہیں، مختلف اداروں کے مطابق تقریباً 70 سے 80 فیصد خواتین کسی نہ کسی شکل میں گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں مگر رپورٹ ہونے والے کیسز اس کے مقابلے میں بہت کم ہیں، دیہی علاقوں میں ونی، کاری، غیرت کے نام پر قتل، جبری شادیاں اور پنچایتوں کے فیصلے جیسے ظلم موجود ہیں، شہری علاقوں میں بھی پڑھا لکھا طبقہ جذباتی اور معاشی تشدد کی کئی شکلیں برداشت کرتا ہے۔

گھریلو تشدد کے مسئلے کو ختم کرنے کے لئے صرف قانون کافی نہیں ہمیں رویے بدلنے ہوں گے، اس کے لئے تعلیم اور آگاہی، معاشی بااختیاری، قانونی رہنمائی اور آسان انصاف کی ضرورت ہے، سکول، کالج، میڈیا، مذہبی اجتماعات ہر سطح پر یہ پیغام عام ہونا چاہیے کہ تشدد گناہ بھی ہے جرم بھی، جب عورت کے پاس روزگار اور معاشی وسائل ہوں گے وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت رکھے گی، ہیلپ لائنز، قانونی امداد، وکلاء کی تربیت، پولیس کا حساس رویہ، یہ سب خواتین کو تحفظ کا احساس دیتے ہیں، خواتین کے لئے محفوظ پناہ گاہوں کی تعداد بھی بڑھنی چاہیے اور ان میں اعلیٰ معیار کی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔

اس سلسلے میں ایک اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ مردوں کی تربیت اور کردار سازی ہونی چاہیے، تشدد کے خاتمے کا حقیقی راستہ مردوں کے رویوں میں تبدیلی سے نکلتا ہے، احترام، برداشت، برابری اور ذمہ داری یہ اقدار مردوں میں رائج کئے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا، گھریلو تشدد اس وقت تک ختم نہیں ہوگا، جب تک ہم سب اس کے خلاف متحد ہو کر کھڑے نہ ہوں، یہ خاموش مسئلہ نہیں بلکہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے، جب تک ہم ظلم کو ’’گھر کا معاملہ‘‘ کہہ کر نظرانداز کرتے رہیں گے نہ جانے کتنی زندگیاں اندھیرے میں گرتی رہیں گی۔

مہوش اکرم فیشن، بیوٹی ایکسپرٹ اور صحافی ہیں، ان کی تحریریں خواتین میں مقبول ہیں۔