28 ویں ترمیم اور نئے صوبے

Published On 27 November,2025 10:51 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ستائیسویں آئینی ترمیم کے بعد اٹھائیسویں ترمیم کی تیاریاں ہونے لگی ہیں، جہاں ستائیسویں ترمیم عدلیہ اور مسلح افواج کے سٹرکچر میں اہم تبدیلیوں سے متعلق تھی وہیں اٹھائیسویں آئینی ترمیم ملک کے انتظامی اور مالی سٹرکچر سے متعلق ہے۔

ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ اٹھائیسویں ترمیم آئندہ برس کے پہلے مہینوں میں آنے کے امکانات ہیں، اس ترمیم کے ذریعے نہ صرف این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کے راستے میں بڑی رکاوٹیں دور ہوں گی بلکہ نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ بھی اس ترمیم کا حصہ بنانے کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے، یوں تو ملک کی دو بڑی جماعتیں نئے صوبوں کے قیام کے حق میں نظر نہیں آتیں مگر سب سے زیادہ مخالفت بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی کرتی دکھائی دیتی ہے جس نے قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق تجاویز کو بھی ستائیسویں آئینی ترمیم میں یکسر مسترد کر دیا۔

حکومت نے ستائیسویں ترمیم کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے مطالبات اس لئے تسلیم کر لئے کہ اس ترمیم کو نومبر کے مہینے میں منظور کرایا جانا حکومتی ہدف تھا، مگر اٹھائیسویں آئینی ترمیم کیلئے حکومت کے پاس نہ صرف وقت ہے بلکہ پورا پلان بھی، اگرچہ دو تہائی اکثریت کیلئے تو حکومت کو پیپلز پارٹی کی ضرورت رہے گی مگر بہت سے اہم معاملات میں اب اس کا پیپلز پارٹی پر انحصار ختم ہوگیا ہے۔

عام قانون سازی، بجٹ منظوری اور تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اب (ن) لیگ پاکستان پیپلزپارٹی کی ضرورت سے نکل چکی ہے، مگر شہباز حکومت کو سادہ اکثریت کیلئے چھوٹے اتحادیوں کی ضرورت رہے گی، ضمنی انتخابات میں چھ نشستیں ملنے پر(ن) لیگ کی قومی اسمبلی میں نشستیں 132 تک پہنچ چکی ہیں، ایم کیو ایم کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 22، مسلم لیگ (ق) کی پانچ، استحکام پاکستان پارٹی کی چار اور مسلم لیگ ضیا کی ایک نشست ہے، اس کے علاوہ حکومت کو چارآزاد اراکین قومی اسمبلی کی بھی حمایت حاصل ہے،یوں ان اتحادیوں کو ملا کر حکومت کے پاس سادہ اکثریت کا نمبر 169 آچکا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی 74 اراکین کے ساتھ ایوان میں دوسری بڑی جماعت ہے جو کابینہ کا حصہ تو نہیں مگر اس لئے اہم اتحادی ہے کہ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ سے ہی شہبازشریف وزیر اعظم بنے اور اس کے سہارے کے بغیر حکومت کے پاس سادہ اکثریت کے نمبرز پورے نہیں تھے، اگرچہ آئینی ترمیم پاکستان پیپلز پارٹی کے ماننے سے ہی ہونی ہے مگر ضمنی انتخابات کے بعد کے نمبرز کے بعد اب حکومت کا پیپلز پارٹی پر دیگر امور میں انحصار ختم ہونے کے باعث اعتماد بہت بڑھ چکا ہے اور حکومت کو پیپلز پارٹی سے بات کرنے میں زیادہ آسانی پیدا ہو چکی ہے کیونکہ آئینی عہدوں پر براجمان پیپلز پارٹی کو بھی ہر حال میں حکومت کے ساتھ ہی چلنا ہے۔

جہاں تک این ایف سی فارمولہ میں تبدیلی اور نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ ہے تو ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کیلئے تو یہ ناگزیر ہو چکا ہے، نہ صرف ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کیلئے یہ ضروری ہے بلکہ ملکی دفاعی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی وفاق اور صوبوں کے معاشی سٹرکچر کو بدلنے کی ضرورت ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ وفاق قرض لے کر اپنی اہم ترین ضروریات پوری کرے اور صوبے وفاق کا اکٹھا کیا گیا ریونیو صرف خرچ کریں۔

این ایف سی کے موجودہ نظام میں آئینی رکاوٹ یہ ہے کہ اس ایوارڈ میں تبدیلی کر کے صوبوں کا کوٹہ بڑھایا تو جا سکتا ہے مگر پچھلے ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ اس قدغن کو دور کرنے کیلئے آئینی ترمیم ناگزیر دکھائی دیتی ہے، ورنہ صورتحال جوں کی توں رہے گی بلکہ مزید خراب ہوگی جس کے مطابق وفاق کما کر صوبوں کے حوالے کرے گا اور ملکی دفاع سمیت اپنے معاملات چلانے کیلئے قرض کا سہارا لیتا رہے گا اور اس کا خمیازہ عوام بھگتتے رہیں گے۔

امن و امان کا مسئلہ ہو یا عام آدمی کو انصاف، تعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا، صوبوں کے موجودہ سائز کے ساتھ کوئی بھی نظام عام آدمی کو ڈیلیور نہیں کر سکتا، کچھ حلقے اس پر تنقید کرتے ہوئے اسے مقتدر حلقوں کا ڈیزائن قرار دیتے ہیں مگر کیا چھوٹے انتظامی یونٹس کا قیام وقت کی ضرورت نہیں؟ پاکستان کے چاروں صوبے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے غیر حقیقی سائز کے ہیں، آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ملک کی کل آباد ی کا 53 فیصد ہے۔

صوبوں کا آبادی اور رقبے کے لحاظ سے حجم اتنا مضحکہ خیز اور حیران کن ہے کہ دیکھ کر انداز ہ ہو سکتا ہے کہ موجودہ سٹرکچر میں رہتے ہوئے ایک عام شہری کی زندگی بدلی نہیں جا سکتی، دنیا کے تمام ممالک میں سے صرف 12 ایسے ہیں جن کی آبادی صوبہ پنجاب سے زیادہ ہے یعنی چین، بھارت، امریکا، جاپان، روس، مصر اور انڈونیشیا جیسے بڑی آبادی والے ممالک کے علاوہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے دنیا کے باقی تمام ممالک سے بڑا ہے، اسی طرح 30 ممالک کے علاوہ سندھ دنیا کے باقی تمام ممالک سے آبادی کے لحاظ سے بڑا ہے، دنیا میں صرف 41 ممالک ایسے ہیں جو آبادی کے لحاظ سے خیبر پختونخوا سے بڑے ہیں، یعنی پاکستان کے صوبے دنیا کے ملکوں کی اکثریت سے بڑے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن، بد انتظامی اور غربت کو نکیل ڈالنی ہے تو اس کا حل صوبوں کا حقیقی سائز ہے تاکہ ان ایشوز پر فوکس کیا جا سکے، اس کیلئے میاں عامر محمود صاحب نے ایک تحقیقی دستاویز تیار کی اور اسے سول سوسائٹی خصوصاً ملک کے نوجوانوں کے سامنے رکھا، اس تحقیقی دستاویز میں جہاں پاکستان میں انتظامی بحران کی نشاندہی کی گئی ہے وہیں اس کے حل کیلئے ڈویژن کی سطح پر یونٹس کو صوبوں کا درجہ دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے، یہ تجویز قابل عمل دکھائی دیتی ہے کیونکہ ڈویژن کی سطح پر انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے جو صوبے کا درجہ ملتے ہی نئے یونٹس کے استعمال میں آسانی سے آجائے گا۔

نئے انتظامی یونٹس کے قیام سے انتظامی اخراجات بڑھنے کے بجائے کم ہوں گے، نئی لیڈر شپ پیدا ہوگی، پہلے سے جاری موروثی سیاست کا خاتمہ ہوگا، سب سے زیادہ فائدہ پسماندہ علاقوں کو ہوگا جو صوبائی ہیڈکوارٹرز سے دور ہونے کے باعث حکمرانوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور ان پر توجہ نہیں دی جاتی، صحت، تعلیم، انصاف سمیت بیسیوں شعبوں میں ترقی دیکھنے کو ملے گی، ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت ان ایشوز پر 28 ویں ترمیم کرنے میں کامیابی ہوگئی تو یہ ترمیم عوام کیلئے ہوگی۔