فلمسٹار حبیب: کچھ یادیں کچھ باتیں

Published On 26 November,2022 02:09 pm

لاہور: (خاور نیازی) زندگی میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو ملتے ہی یاد رہنے کیلئے ہیں، ان میں یا تو ان کی شخصیت کا کمال ہوتا ہے ، ان کا حسن اخلاق یا پھر ان کے ساتھ آپ کی ذہنی ہم آہنگی میں آج بھی وہ دن یاد کرتا ہوں جب میں لاہور کے ایک بینک کی برانچ میںبرانچ منیجر کی حیثیت سے تعینات تھا، اس دن میں حسب معمول اپنے کیبن میں مصروف کار تھا جب اچانک غیر ارادی طور پر میری نظر کیش کاؤنٹر کے سامنے لمبی لائن پر پڑی۔

اس لائن میں دراز قد ایک شخص ہاتھ میں چیک پکڑے اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا، میں نے دوبارہ اس شخص کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں خود سے کہا ہاں یہ وہی ہے۔ میں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے نائب قاصد کو بلا کر اشارہ کیا کہ لائن میں کھڑے ان صاحب کو میرے پاس لے کر آؤ۔

تھوڑی ہی دیرمیں ایک ہنستا مسکراتا چہرہ میرے کیبن میں داخل ہو کر اس اپنائیت سے مجھ سے مخاطب تھا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ یہ ماضی کے معروف فلم سٹار حبیب سے میری پہلی ملاقات تھی۔اعلیٰ تعلیم یافتہ،اخلاق اور انکساری کے پیکر حبیب صاحب کو قدرت نے لاتعداد خوبیوں سے نواز رکھا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے تعلقات نے ہمیں ایک دوسرے کے اس قدر قریب کر دیا تھا کہ اگر کبھی میں اپنی پیشہ ورانہ یا نجی مصروفیات کے باعث رابطہ نہ کر سکتا تو شکوے کا فون آجاتابلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ خیریت دریافت کرنے میں اکثر پہل انہی کی طرف سے ہوتی تھی۔ آج ان پر لکھنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ آج ان کا یوم پیدائش ہے۔

کالم نگار حسن نثاربھی میرے اچھے دوستوں میں سے تھے ۔اکثر میرے پاس بینک ان کا آنا جانا رہتا تھا، ایک دن حسن اتفاق یہ دونوں میرے کمرے میں بیٹھے تھے۔ جاتے جاتے حسن صاحب نے بیلی پور میں اپنے نوتعمیر شدہ فارم ہاؤس آنے کی دعوت دی اور کہا کہ کل سنڈے ہے ، میں آؤں اور دوپہر کا کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ میں نے ان کی دعوت قبول کر لی، کہنے لگے حبیب صاحب کو بھی ساتھ لائیں گپ شپ رہے گی۔

اگلے روز حبیب صاحب اور میں اُن کے فارم ہاؤس پہنچے، بہت دیر تک گپ شپ ہوتی رہی۔ واپسی پر جب ہم ٹھوکر نیاز بیگ پہنچے تو حبیب صاحب بولے کیوں نہ ہم ملتان روڈ کی طرف سے چلیں۔ میں نے گاڑی ملتان روڈ کی طرف موڑ دی۔ چند کلومیٹر آگے جا کر حبیب صاحب نے ایک جگہ پہنچ کر کہا کہ آئیں یہاں چائے پیتے ہیں۔

مجھے حیرت ہوئی کیونکہ یہاں کوئی قابل ذکر ہوٹل یا ٹی سٹال وغیرہ مجھے نظر نہ آیا، البتہ ایک نیم فعال کھوکھا ٹائپ ہوٹل نظر آیا جس کے اوپر کسی نیم خواندہ شخص کا لکھا مدھم سا ایک پرانا بورڈ نظر آیا۔ غور سے دیکھنے کے بعد بس اتنا سمجھ آیا ’’ حبیب ٹی سٹال ‘‘۔ اس کے باہر ایک ضعیف سا شخص دنیا جہاں سے بے نیاز بیٹھا حقہ پینے میں مصروف تھا۔حبیب صاحب نے گاڑی کے اندر بیٹھے بیٹھے اسے مخاطب کر کے آواز لگائی ’’ چوہدری دو کپ چائے ‘‘۔ چوہدری ایک دم چونکا اور حیرت سے اردگرد دیکھنے لگا۔ چوہدری کا چونکنا اس قدر حیرت انگیز تھا جسے میں آج تک نہیں بھول سکا۔

حبیب صاحب نے گاڑی سے اتر کر اس سے مصافحہ کیا تو چوہدری نے شکوہ کیا، صاحب !آپ کو یاد ہے، آج آپ آٹھ سال بعد یہاں آئے ہیں اور پھر جواب کا انتظار کئے بنا انہی قدموں چائے بنا نے چل دیا۔ تھوڑی ہی دیرمیں وہ ایک ٹرے میں دو کپ چائے لئے کھڑا تھا۔ ایک پرانا سا روائتی کپ میری طرف اور دوسرا ایک شاندار کپ حبیب صاحب کی طرف بڑھا کر بولا !آج میں بہت خوش ہوں۔

چائے کا کپ پکڑتے ہی حبیب صاحب بولے ، چوہدری یار میرا یہ کپ تم نے ابھی تک سنبھال رکھا ہے ؟۔ چوہدری کا جواب کیا شاندار تھا۔بولا صاحب آپ تو ایک کپ کی بات کر رہے ہیں، میں نے تو آپ کی حسیں یادوں کو بھی برسوں سے سینے میں سنبھال رکھا ہے۔

حبیب صاحب مسکرائے اور چوہدری سے گرم جوشی سے مصافحہ کر کے کہنے لگے، چوہدری اب انشااللہ میں ہر کچھ دن بعد حاضری لگوانے آیا کروں گا۔یہ کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔

راستے میں حبیب صاحب بتا رہے تھے کہ میں جب بھی سٹوڈیو سے گھر جانے کیلئے نکلتا میرا پہلا پڑاؤ چوہدری کے ’’ حبیب ٹی سٹال ‘‘ ہوتا جس کا نام اس نے میرے ساتھ اظہار عقیدت کے طور پر رکھا تھا۔یہ ہر رات میرا منتظر ہوتا، خواہ رات کا آخری پہر ہی کیوں نہ ہوتا۔مجھے اس کی عقیدت کا پورا احساس تھا۔ اسی لئے بعض اوقات رات گئے میں جب گھر کے قریب جا پہنچتا تو یاد آتا اور پھر انہی قدموں میں واپس حبیب ٹی سٹال آکر حاضری لگواتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ چوہدری کی چائے بھی اس کے خلوص کی طرح بے مثال ہوا کرتی تھی۔ حبیب صاحب مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے کہ اس بندے (چوہدری )کی عقیدت کااندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسے اتنا بھی یاد ہے کہ میں آج لگ بھگ آٹھ سال بعد یہاں آیا ہوں۔

چند دن بعد فہد حبیب ( حبیب صاحب کے فرزند )نے فون کر کے مجھے بتایا کہ ابو اتفاق ہسپتال میں شدید علالت کے باعث قومے میں ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں،میںاتفاق ہسپتال کے سی سی یو وارڈ میں حبیب صاحب کے بیڈ کے پاس کھڑا تھا جہاں وہ دنیا کے شوروغل سے بے نیاز مصنوعی آکسیجن کے سلنڈر کے سہارے زندگی سے نبرد آزماتھے۔

پھر چند دن بعد جب میں ان کی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد ان کاآخری دیدار کر رہاتھا جانے کیوں ایک دم چوہدری کی تصویر میرے ذہن میں گھومنے لگی جو آٹھ سال اپنے ’’حبیب ‘‘کاانتظار کرتے کرتے جانے اب کب تک اس کے آنے کا انتظار کرے گا ؟

خاور نیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں۔
 

Advertisement