سانحہ لاہور کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ، خودکش بمبار ارفع کریم ٹاور تک کیسے پہنچا؟ تعین نہ ہو سکا، 22 گھنٹے کی فوٹیج سے بھی کوئی مدد نہ ملی، خودکش بمبار کسی قریبی آبادی سے آیا، حکام کا دعویٰ۔
لاہور: (دنیا نیوز) صوبائی دارالحکومت میں ارفع کریم ٹاور کے قریب خودکش دھماکے کے بعد شہر کی فضاء دوسرے روز بھی سوگوار رہی۔ اپنوں کے بچھڑنے کے غم میں کئی گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ ارفع کریم ٹاور پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ سرکاری اور نجی سی سی ٹی وی کیمروں کی بائیس گھنٹے کی فوٹیجز حاصل کرنے کے باوجود تفتیشی ادارے خودکش بمبار کی نشاندہی میں ناکام رہے۔
حملہ آور کہاں سے آیا؟ ارفع کریم ٹاور تک کیسے پہنچا؟ بنیادی سوالات کا دوسرے روز بھی جواب نہ مل سکا۔ بمبار ممکنہ طور پر کسی قریبی یا چند کلومیٹر کی مسافت والی آبادی سے آیا، حکام کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
پنجاب حکومت نے تحقیقات کیلئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹیم میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، سی ٹی ڈی اور پولیس کے اعلیٰ افسر شامل ہوں گے۔ دوسری طرف ارفع کریم ٹاور دھماکے کی سانحہ بیدیاں روڈ سے مماثلت کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ آور کا حلیہ بیدیاں روڈ حملے کے بمبار جیسا تھا۔ خودکش حملہ آور نے سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور اس کے جوتے کا سائز 8 نمبر تھا۔
خودکش حملے کے زخمی مختلف ہسپتالوں میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل ہسپتال کا دورہ کیا اور سانحہ کے زخمیوں کی عیادت کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اتفاق ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اور واقعے کی تفصیلات معلوم کیں۔
خودکش حملے کے شہداء کی آبائی علاقوں میں تدفین کر دی گئی ہے۔ سب انسپکٹر ریاض کی کاہنہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ اے ایس آئی فیاض احمد کو شاہ کوٹ اور خرم نذیر کو بورے والا میں سپردِ خاک کیا گیا ہے۔ جہلم کے تاجر محمد خان کی آبائی علاقے میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔