کراچی: ( روزنامہ دنیا ) سانحہ 12 مئی 2007ء کو 11 سال مکمل ہونے کے باوجود ملزمان کو گرفتار کیا جاسکا نہ سزائیں دلائی جاسکیں۔ پولیس نے عدالتوں میں چالان جمع کرایا، تاہم اب تک ملزمان پر فرد جرم بھی عائد نہیں ہوسکی، جس کی وجہ ملزمان کی عدالتوں میں عدم پیشی ہے۔ گزشتہ 2 ماہ سے ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے 4 سماعتیں ہوچکی ہیں مگر کبھی وسیم اختر تو کبھی دیگر ملزمان پیش نہیں ہوتے اور سماعت مؤخر ہوجاتی ہے ۔مقدمات میں میئر کراچی کو حاضری سے استثنیٰ دیا گیا تھا، عدالت نے استثنٰی ختم کرتے ہوئے 15 مئی 2018 ء کو تمام ملزمان کو عدالت میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
مقدمے میں 40 سے زائد ملزمان مفرور ہیں، جن کو کئی بار نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود گرفتار نہ کیا جاسکا، جس کی وجہ سے مقدمات میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ سانحہ 12 مئی کے درجنوں مقدمات درج کیے گئے مگر صرف 8 مقدمات میں چالان پیش کیے گئے۔7 مقدمات میں میئر کراچی بھی نامزد ہیں۔ تفتیشی افسر نے مذکورہ 7 مقدمات میں گرفتار 6 ملزمان ارسلان، وقاص، غلام مرتضیٰ، سید طلحٰہ، ذیشان بشیر اور محمد عدیل کو بے قصور قرار دیتے ہوئے رہا کر دیا۔
جلاؤ گھیراؤ، ہنگامہ آرائی، قتل، اقدام قتل سمیت انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درجنوں مقدمات درج ہوئے، بیشتر مقدمات میں تفتیشی افسران نے عدالتوں کو بتایا کہ مقدمات نامعلوم ملزمان کے خلاف ہیں اور ملزمان کا سراغ تاحال نہیں لگایا جاسکا ہے، اگر مستقبل میں کوئی ملزم گرفتار ہوا تو عدالت میں پیش کر دیا جائے گا، 8 مقدمات پر بھی عدالتی کارروائی 2015 ء اور 2016 ء سے شروع ہوئی، ملزم اسلم عرف کالا کو جولائی 2016 ء میں گرفتار کیا گیا، 4 مقدمات میں رکن صوبائی اسمبلی محمد عدنان اور محمد کامران فاروق کو بھی نامزد کیا گیا، جو تاحال مفرورہیں، جنیدعرف گاڈا، عمران عرف انگریز، سلمان رضو ی اور نا صر کو بھی مذکورہ 7 مقدمات میں نامزد کیا گیا۔
بعدازاں جولائی 2016 ء میں ملزمان نورالحسن، سید ارسلان علی، وقاص قائمخانی، فیصل وہاب، غلام مرتضیٰ، سید طلحہٰ، ذیشان بشیر، اظہر قریشی اور محمد عدیل کو اسلم کالا کی نشاندہی پر گرفتار کیا گیا۔ مفرور ملزمان میں متحدہ ایم پی اے کامران فاروقی، محمد عدنان، سید اعجاز شاہ، عمیر حسین، جنید بلڈاگ، فرحان شبیر، محمد فہد، محمد عابد، عرفان، فیصل ہاشمی، محمد انور قائم خانی، محمد ساجد، عامر مشتاق، عبد الاحد، عبد الحفیظ، عبدالسلام، عبدالوحید، زاہد، عابد علی، علی احمد، آصف احمد قریشی، عزیز، دلدار میاں، فرید الدین، فرخ ظفر، حق نواز، جاوید علی قریشی، ادریس، فرحان، خالد، بابو شہزاد، راشد خان، کاشف علی، الطاف، محمود خان، ارشد بیگ، ذوالفقار علی ، محمد عباس، ظفر، ناظم اختر ،ذاکر ،عبدالسلام ،سہیل رانا ،محمد معراج ،محمد ناصر اور فرحت شامل ہیں۔
مفرور ملزمان کوتاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔ سانحہ 12 مئی 2007 ء کی ازسر نو تحقیقات کے لئے لاجر بینچ تشکیل دینے کی درخواست بھی سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اقبال کاظمی کی درخواست ابھی تک التواء کا شکار ہے۔ اس درخواست پر 2012 ء کو جنرل پرویز مشرف کو بھی فریق بنایا گیا تھا اور عدالت نے ان کی حاضری کے لئے اخبارات میں اشتہار بھی شائع کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ واضح رہے کہ بارہ مئی 2007ء کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کراچی دورے پر پہنچے تھے، لیکن اس روز شہر میں ہنگامہ آرائی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں تصادم ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کے 50 کارکن ہلاک ہو گئے تھے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ وکلاء تنظیموں اور پیپلز پارٹی نے 12 مئی واقعہ کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا لیکن وکلاء تنظیمیں پیچھے ہٹ گئیں اور پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد خاموشی اختیار کر لی تھی۔