پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمنام جماعتوں کا پس منظر

Last Updated On 26 June,2018 08:35 pm

لاہور: (دنیا الیکشن سیل) پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے ہی ہمنام جماعتیں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔

عمومی طور پر کسی بڑی جماعت کے اندر اختلافات کے بعد نئی جماعتوں کا وجود اسی جماعت کے نام پر عمل میں آتا ہے اور ایسا عام انتخابات کے موقع پر ہی ہوتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی پس منظر میں سیاسی جماعتوں کی پزیرائی اور مقبولیت کی بعد ان کی ہمنام جماعتوں کے بننے کا رجحان کافی پرانا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ سے نالاں لوگوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) جس کے بانی میاں نواز شریف اور موجودہ صدر میاں شہباز شریف ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ق) جس کے صدر چودھری شجاعت حسین ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ف) جس کے صدر پیر صبغت اللہ شاہ پیر پگاڑا ہیں،عوامی مسلم لیگ جس کے صدر شیخ رشید احمد ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ج) جس کے صدر محمد اقبال ڈارہیں، پاکستان مسلم لیگ شیر بنگال جس کے صدر ڈاکٹر علاؤالدین ہیں، پاکستان مسلم لیگ کونسل جس کے صدر نعیم حسین چٹھہ ہیں، پاکستان مسلم لیگ آرگنائزیشن جس کی چیئر پرسن فاطمہ لبنہ حسین ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ض) جس کے صدر اعجاز الحق ہیں اور پاکستان نیشنل مسلم لیگ جس کی چیئر پرسن فرخندہ امجد علی وڑائچ ہیں بنائیں۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہنے والے لوگوں نے پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو جس کی چیئرپرسن ذوالفقار علی بھٹو کی بہو غنویٰ بھٹو ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین جس کے صدر آصف علی زرداری ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز جس کے صدر ڈاکٹر صفدر علی عباسی ہیں، کے نام سے جماعتیں بنائیں۔

جمعیت علماء اسلام کی بھی ہمنام جماعتیں جمعیت علماء اسلام (ف) جس کے امیر مولانا فضل الرحمان ہیں، جمعیت علماء اسلام (س) جس کے صدر مولانا سمیع الحق ہیں، جمیعت علماء اسلام نورانی جس کے صدر صاحبزادہ عبدالخیر محمد زبیر ہیں اور جمعیت علماء اسلام نظریاتی پاکستان جس کے صدر مولانا خلیل احمد مخلص ہیں بنیں۔

اس بار ایسی ہی صورتحال کا شکار تحریک انصاف نظر آرہی ہے اور مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی ہمنام جماعتیں پاکستان تحریک انصاف نظریاتی اور پاکستان تحریک انصاف گلالئی کے نام سے سامنے آئی ہیں۔ یہ جماعتیں اور ان کے رہنما آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ آئندہ الیکشن میں یہ ہمنام جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو کم یا زیادہ لیکن نقصان ضرور پہنچا سکتی ہیں۔

پی ٹی آئی میں دھڑے بندیاں کوئی نئی بات نہیں، پارٹی کے ناراض اراکین نے پہلے پارٹی کے اندر مختلف گروپ بنائے اور یہ گروپ بندیاں 2013 کے عام انتخابات سے پہلے ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات میں کھل کر سامنے آئیں۔ جب اختلافات مزید بڑھے تو کچھ نالاں اراکین نے اپنی جماعتیں بنا ڈالی۔
2016 میں شیخوپورہ سے تحریک انصاف کے سابق رہنماء اور دیرینہ کارکن اختر اقبال ڈار نے اختلافات کی بنا پر پارٹی چھوڑ کر اپنی نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے نام سے بنائی تھی، جس کو الیکشن کمیشن سے باقاعدہ رجسٹرڈ بھی کرا لیا تھا۔ اختر اقبال ڈار اس نئی پارٹی کے چئیرمین ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات کے لیے پی ٹی آئی نظریاتی کے پارلیمانی بورڈ نے منظوری کے بعد 40 قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے جبکہ باقی ٹکٹوں کا اعلان 25 جون تک کردیا جائے گا۔ پی ٹی آئی این کے امیدوار بلے باز کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیں گے جبکہ تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا ہے۔ ملتا جلتا نام اور ملتا جلتا انتخابی نشان ووٹرز کے لیے ابہام پیدا کر سکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں جیسے جیسے اضافہ ہورہا ہے اسی طرح پارٹی کے اندورنی اختلافات نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ برس پارٹی سے نالاں کارکن اور پی ٹی آئی کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی سابق رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر بہت سے الزامات لگائے۔ عائشہ گلا لئی نے عمران خان سے شادی کے معاملے پر اختلافات کے بعد پارٹی چھوڑدی تھی۔ انہوں نے اپنے بیانات میں پی ٹی آئی چیئرمین پر کڑی تنقید کی، بے ہودہ موبائل پیغامات بھیجنے کا الزام لگایا اور تحریک انصاف کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔

عائشہ گلالئی نے اپنی نئی جماعت  پاکستان تحریک انصاف گلالئی  کے نام سے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجسٹرڈ کروایا۔ آئندہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف گلالئی کے امیداران  ریکٹ  کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف گلالئی کی جانب سے چار خواجہ سراؤں کو عام انتخابات کے لیے ٹکٹ جاری کردیے گئے۔ خواجہ سراؤں کو ٹکٹ دینے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا مؤقف تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کو انتخابی ٹکٹ دیا جا رہا ہے، جن میں خواجہ سرا نایاب علی این اے 142 سے الیکشن لڑیں گی جبکہ ندیم کشش این اے 52 سے الیکشن لڑیں گی، لبنیٰ لعل پی پی 26 اور میڈم رانی پی کے 40 سے الیکشن لڑیں گی۔

اسلام آباد سے طارق فضل چودھری کے مقابلے میں خواجہ سرا امیدوار الیکشن میں حصہ لیں گے جبکہ پارٹی کی سربراہ عائشہ گلالئی نے عمران خان کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے اور این اے 53 اسلام آباد سے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔ عائشہ گلالئی نے بیک وقت چھے حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا تھا۔

عائشہ گلالئی تحریک انصاف کے ناراض اور پارٹی ٹکٹ سے محروم ہونے والے رہنماؤں سے رابطے کی کوشش کر رہی ہیں اور پی ٹی آئی جی کا ٹکٹ آفر کر رہی ہیں۔ اس طرح کی جماعتیں ماضی میں بھی سامنی آتی رہی ہیں جن کا مقصد انتخابات میں کسی خاص جماعت کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نظریاتی اور تحریک انصاف گلالئی انتخابات میں تحریک انصاف عمران خان کو نقصان پہنچانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں اس کا اندازہ تو الیکشن کے نتائج ہی بتا پائیں گے۔

Advertisement