لاہور: (روزنامہ دنیا) الیکشن 2018 نے پاکستان کی سب سے بڑی اور مضبوط اپوزیشن کو جنم دیا اور بظاہر یہ اپوزیشن ایک دوسرے سے جڑ بھی گئی لیکن لگ یہ رہا ہے کہ یہ اتحاد سطحی ہے، ان کے اندر اختلافات کی وسیع خلیج اب بھی موجود ہے، یہ اختلافات جماعتی سطح پر بھی ہیں اور نظریاتی سطح پر بھی نظر آرہے ہیں۔ یہ بات میزبان کامران خان نے پروگرام "دنیا کامران خان کے ساتھ " میں بتائی۔
ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف افتتاحی احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں اداروں کے خلاف شدید تلخ باتیں اور انتہائی نا مناسب نعرے بازی کی گئی۔ یہ انتہائی خطرناک پیش رفت ہے مگر ایک مثبت بات بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سائیڈ پر ہوگئیں۔ دونوں جماعتوں نے خود کو اس ماحول سے الگ رکھا اور واضح طور پر لگتا ہے کہ وہ اس نوعیت کی سیاست،اس کڑواہٹ اور سخت گیر رویہ کے حامی نہیں ہیں ۔اس مظاہرے میں چار بڑی جماعتوں کے قائدین شریک نہیں ہوئے جن میں شہباز شریف، حمزہ شہباز، آصف زرداری، بلاول بھٹو، اسفند یار ولی اور سراج الحق شامل ہیں۔
سراج الحق کی عدم شرکت نے حزب اختلاف میں اختلافات کے آثار نمایاں کر دیے ہیں، واضح طور پر لگتا ہے کہ اپوزیشن کی اعلیٰ قیادت ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن کی موجودہ تحریک سے شہباز شریف کی عدم دلچسپی سب سے اہم ہے کیونکہ مسلم لیگ ن الیکشن بارے سب سے زیادہ شکایت کر رہی ہے۔ شہباز شریف اپوزیشن تو کرنا چاہتے ہیں لیکن ایک حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہتے۔ ادھر پیپلز پارٹی اس قسم کی احتجاجی سیاست کا حصہ بالکل نہیں بننا چاہتی۔
سینئر تجزیہ کار سلمان غنی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کے حلقوں میں یہ بات ہو رہی ہے کہ ایک شخص لندن سے آ کر اڈیالہ جیل پہنچ گیا دوسری طرف ان کے چھوٹے بھائی ایئرپورٹ بھی نہ پہنچ سکے۔ شہباز شریف اس وقت یکسو نہیں ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ سب کچھ نواز شریف کی منشا سے ہو رہا ہے، شہباز شریف موثر اپوزیشن لیڈر کا رول ادا کرتے نظر نہیں آرہے۔
معروف تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا احتجاج میں جو نعرے لگے اس سے جو ایک ڈھیلا ڈھالا اپوزیشن اتحاد بن گیا تھا وہ بھی اب ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ سراج الحق نے تو یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی حکومت سے تعاون پر تیار ہیں۔ ابھی تو مزید اختلافات پیدا ہونگے جب یہ طے کرنا ہوگا کہ اپوزیشن لیڈر کون ہوگا۔ پیپلز پارٹی اپوزیشن لیڈر کے لئے کوشش کرے گی جبکہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کا امکان ہے۔