کراچی: (دنیا نیوز) شرجیل انعام میمن کے کمرے سے شراب کے بوتلیں ملنے کے معاملے پر کراچی پولیس چیف نے کمیٹی قائم کر دی جبکہ مقامی عدالت نے معاملے میں گرفتار تین ملزموں کو جیل بھیج دیا۔
کراچی میں پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلیں ملنے کی دوسرے روز بھی گونج جاری ہے۔ اس معاملے پر کراچی پولیس چیف امیر شیخ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ کمیٹی میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ اور ایس پی انویسٹی گیشن ایسٹ بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے چھاپے کے دوران گرفتار کیے گئے تین ملزموں مشتاق علی، شکر دین اور محمد جام کو عدالت نے 15 ستمبر تک جیل بھیج دیا ہے۔
چیف جسٹس کراچی میں اتوار کے روز بھی اچانک دورے پر کلفٹن میں واقع باتھ آئی لینڈ پہنچ گئے، وہاں ایک صحافی نے ان سے شرجیل میمن کے
کمرے پر چھاپے سے متعلق سوال پوچھ لیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہسپتال پر نہیں، سب جیل پر چھاپہ مارا تھا۔
ایک صحافی نے پوچھا کہ چیف جسٹس صاحب کراچی آ کر آپ کو کیسا لگا؟ جس کے جواب میں انہوں نے مسکرا کر کہا کہ پہلے سے زیادہ صاف لگ رہا ہے۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ روز کلفٹن میں واقع نجی ہسپتال کا اچانک دورہ کیا جہاں زیرِ علاج پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی 3 بوتلیں، منشیات اور سگریٹ ملے جس کے بعد ملزم کو جیل منتقل کر کے ہسپتال کا کمرہ سیل کر دیا گیا۔
پولیس نے شرجیل میمن کے ڈرائیور سمیت 3 ملازمین کو گرفتار کر لیا جبکہ جیل حکام کی مدعیت میں شرجیل میمن اور ان کے 3 ملازمین مشتاق، محمد جام اور شکر دین کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا اور ہسپتال کو سب جیل قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
چیف جسٹس نجی ہسپتال میں شرجیل میمن کے کمرے میں 3 منٹ تک رہے اور ان سے علاج اور بیماری کے بارے میں سوالات کئے۔ ایک ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس ہسپتال پہنچے تو شرجیل میمن کے کمرے کے باہر موجود ملازم نے بتایا شرجیل میمن سو رہے ہیں، اس وقت کمرے کے اندر لائٹ بند تھی۔ چیف جسٹس نے کہا لائٹ کھولیں اور شرجیل میمن کو اٹھائیں، ذرا دیر بعد شرجیل میمن بغیر لاٹھی کے سہارے کمرے سے باہر نکلے تو چیف جسٹس نے کہا میں چیف جسٹس پاکستان ہوں، آپ کی خیریت معلوم کرنے آیا ہوں۔
چیف جسٹس کمرے میں داخل ہوئے اور کہا یہ ہے آپ کی سب جیل، آپ تو مکمل صحت مند لگ رہے ہیں، چیف جسٹس کی نگاہ شراب کی بوتلوں پر پڑی تو پوچھا یہ کیا ہے؟ شرجیل میمن نے جواب دیا شراب کی بوتلیں میری نہیں، میں نے شراب نہیں پی، میڈیکل کرا لیں۔
چیف جسٹس کے حکم پر سپریم کورٹ کے عملے نے شراب کی بوتلیں چیک کیں اور تصدیق کی کہ ان سے شراب کی بو آ رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ڈی آئی جی جیل خانہ جات کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا یہاں علاج کے بہانے بااثر قیدی عیاشیاں کر رہے ہیں کیوں نہ آپ کو شوکاز نوٹس جاری کیا جائے، حقائق سامنے آ رہے ہیں کہ جیل سے باہر علاج کا بہانہ کیوں رچایا جا رہا ہے؟
جب چیف جسٹس چلے گئے تو انہوں نے عملے کو دوبارہ مزید تحقیق کے لئے ہسپتال بھیجا اور شرجیل میمن کے ملاقاتیوں اور ہسپتال کے متعلقہ ریکارڈ کی تحقیقات کا حکم دیا اور ہسپتال کی ایک ماہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کی ہدایت کی۔
آن لائن کے مطابق چیف جسٹس کے معائنہ کے دوران ہسپتال کے عملے کو کمرے سے نکال دیا گیا اور ممنوعہ اشیا کی تصویریں لی گئیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو طلب کیا اور کہا یہاں آ کر دیکھیں کیا ہو رہا ہے، ذرا اس طرف بھی توجہ دیں، مجھے یہ تمام لوازمات دیکھ کر نہیں لگتا شرجیل میمن بیمار ہیں یہاں علاج نہیں آرام ہو رہا ہے جس کے بعد شراب کی بوتلیں، منشیات اور دوسری ممنوعہ اشیا کو تحویل میں لے لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق شرجیل میمن کے پرتعیش کمرے میں علاج نام کی کوئی چیز نہیں تھی، نرس نظر آئی نہ کوئی ڈاکٹر تھا۔
ڈی آئی جی جیل خانہ جات ناصر آفتاب نے بتایا ہے کہ شرجیل میمن کے ملازمین سے تفتیش جاری ہے، سکیورٹی اہلکاروں سے بھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔
شرجیل میمن کے ڈرائیور جام محمد نے کہا کہ میں دوسرے ڈرائیور کی جگہ ڈیوٹی کر رہا تھا، میرا کام گھر سے کھانا پہنچانا تھا۔ گرفتار ملزم نے بیان دیا شراب کی ایک بوتل میں شہد اور دوسری میں تیل تھا۔
شرجیل میمن کے دوسرے ملازم زاہد نے کہا مجھے نہیں پتا اسے کیوں حراست میں لیا گیا؟ پولیس کے مطابق صورتحال کا جائزہ لے کر شرجیل میمن کے کمرے کے فلور پر موجود سکیورٹی گارڈ کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلیں ملنے کے بعد چیف سیکرٹری سندھ اور ڈی آئی جی جیل خانہ جات ہسپتال پہنچے اور معاملے کی تحقیقات کیں۔