اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب، کلیم امام، احسن جمیل گجر کے معافی نامے قبول کرتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں، وزیراعظم کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ یہی وزیراعلیٰ رہیں گے، اگر یہ وزیراعلیٰ رہیں گے تو عدالت کے فیصلوں کے تابع رہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو خیال نہیں عدالت میں آ کر غلطی تسلیم کرے، معافی مانگے، شرمساری دکھائے، وزیراعلیٰ نے جواب میں بہترین افسر پر ذاتی حملہ کیا، وزیراعلیٰ کون ہوتے ہیں ایسا جواب بھیجنے والے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ وزیراعلی معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں، معاملہ حساس تھا اس لیے وزیراعلی نے ڈی پی او کو بلایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے غیر متعلقہ شخص کے سامنے پولیس افسروں کو بلایا، کیا وزیر اعلیٰ صادق اور امین ہیں ؟ کل کو 62 ون ایف کے کیس میں یہ سوال بھی اٹھیں گے۔ چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے قریبی دوست احسن جمیل گجر کے بارے میں کہا کہ کیا پولیس افسران کے بارے میں احسن جمیل ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں ؟ کیا یہ حکومت ہے جو نیا پاکستان بنا رہی ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے میری ناپسندیدگی کا اظہار کر دیں، کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے ؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان ؟ آگئے ہیں سارے مل کر نیا پاکستان بنانے، جب ہم 62 ون ایف کی انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بنے گا، کرامت کھوکھر کا معاملہ پی ٹی آئی ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا۔
وکیل احسن بھون نے کہا کہ احسن جمیل کی طرف سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خاور مانیکا خود جا کر بات نہیں کر سکتے تھے، ہم انکوائری کراتے ہیں جو ریکارڈ لانا ہے لے آئیں، ہم قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو قانون کے سامنے جھکنا ہوگا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی تحریری معافی جمع کروا دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وزیراعلی اور احسن گجر کو واضح الفاظ میں معافی نامہ جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔