لاہور: (سلمان غنی) جس حکومت نے 100 روز کے اندر ٹیک آف کرنا تھا آج وہ دفاعی محاذ پر کھڑی نظر آ رہی ہے تو سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ کیا حکومت کی تیاری نہیں تھی۔ ان کے پاس معاشی صورتحال آگے لے جانے کے لیے منیجرز نہیں تھے یا حکومت کے اندر کوئی ایسی کنفیوژن ہے جس کا اظہار ان کی پالیسیوں سے نظر آ رہا ہے اور مایوسی وبے چینی جڑ پکڑ رہی ہے۔
معاشی حوالے سے تو کہا جا سکتا ہے کہ کچھ حالات اچھے نہیں ہیں۔ ماضی میں قرضوں پر انحصار ہوا۔ مہنگے منصوبوں پر اضافی اخراجات، برآمدات گھٹتی اور درآمدات بڑھتی چلی گئیں، یہ سب چیزیں معاشی بحران کا باعث بنیں۔ انہیں ٹارگٹ کر کے بھی وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت نے خود کو متبادل کے طور پر پیش کیا لیکن دو ڈھائی ماہ کی صورتحال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ہم جنگل سے نکل نہیں رہے۔ ملک معاشی دلدل اور دباؤ میں پھنس چکا ہے۔ تاہم اس صورتحال میں حکومتی طرز عمل کوئی اچھا نظر نہیں آ رہا، بالغ نظری اور بصیرت کی کمی نمایاں ہے۔ بیانات اور دھمکیوں سے کام چلانے کی کوشش ہو رہی ہے، کرپشن، کرپشن کی رٹ لگا کر صورتحال سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ،کوئی اس حوالے سے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتا۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حالات حکومت کی گرفت سے نکل چکے ہیں۔
حکومت کو بیانات کے گولے داغنے کے بجائے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے، ماہرین سے مشورہ کر کے اپنا نیا راستہ بنانا چاہئے، اگر سنجیدگی اور یکسوئی اختیار کی جائے تو 6 ماہ سے ایک سال کے اندر معاشی بحران سے نکل سکتے ہیں، اس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی محاذ پر درجہ حرارت بڑھانے کے بجائے کسی قومی فریم ورک پر اتفاق رائے کیا جائے، یہ ذمہ داری صرف حکومت کی نہ ہو بلکہ اپوزیشن کو بھی ساتھ لیکر چلا جائے۔ ملک سے گروہ بندی ختم کی جائے۔ ملک کو اقتصادی اور سیاسی استحکام سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اداروں کے درمیان اعتمادکی فضا قائم کی جائے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، انتظامیہ اور میڈیا اس وقت ایک پیج پر نظر نہیں آ رہے جس کے باعث انتشار نظر آ رہا ہے،عدم استحکام اور انتشار دشمن کا ایجنڈا تو ہو سکتا ہے کسی محبِ وطن کا نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر اداروں کے اندر سے اچھے افراد کو چن کر ملک کے لیے بروئے کار لایا جائے۔
اپوزیشن بظاہر یہ کہتی نظر آ رہی ہے کہ حکومت کو غیر مستحکم نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن اسے مستحکم ہوتا بھی نہیں دیکھ سکتے ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنے رویوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ان کے درمیان باہمی رابطے اور افہام و تفہیم کی ضرورت ہے، دونوں جانب سے کوتاہی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے جسے ملکی مفاد میں بردباری اور تحمل ظاہر کرتے ہوئے اپوزیشن سے تعاون کرناچاہئے۔ اب تک کی حکومتی کارکردگی کو دیکھا جائے تو فیصلوں میں جلد بازی نے حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ فیصلوں کا اعلان قبل از وقت کرایا جاتا رہا ہے جس سے خود حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوئیں، منتخب حکومتوں اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بحرانوں کا خاتمہ یقینی بناتے ہیں لیکن نئی حکومت کی کارکردگی کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو بڑا بحران خود ان کی بے موقع گفتگو سے پیدا ہوا ہے۔
نئی حکومت کے لیے عوام کی مایوسی اچھا شگون نہیں۔ مخالفین پر تنقید ضرور ہونی چاہئے لیکن اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرنا بھی لازم ہے ۔ لوگوں کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترنے کے لیے بیانات نہیں کام کر کے دکھانا پڑے گا کیونکہ عوام نے پہلی دفعہ ایک تیسری قوت کو حکومت کا موقع دیا ہے اور اس جماعت کی حکومت کو ماضی کی حکومتوں سے مختلف نظر آنا چاہئے۔ پاکستان جس گرداب میں پھنس چکا ہے اس سے نکلنے کے لئے سیاسی طرز عمل اور سیاسی حکمت عملی اپنانا پڑے گی۔ اپنے مینڈیٹ کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کچھ کر کے دکھانا پڑے گا جہاں تک کرپشن کرپشن کی رٹ کا سوال ہے تو احتساب ضرور ہو مگر یہ اوپر سے سب کا اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہئے یہ کام حکومت کا نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے وزن پر قائم رہتے ہوئے اپنے مینڈیٹ کے مطابق جدوجہد کرے اور مسائل ومہنگائی زدہ عوام کے لیے ریلیف کا بندوبست کرے اگر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر عوام کے لیے سبسڈی ختم ہو گی تو عوام پر معاشی اور حکومت پر سیاسی بوجھ آئے گا، منتخب حکومت کے خلاف عوام کے اندر لاوا پکتا گیا تو پھر یہ کسی وقت ضرورپھٹجائے گا اور منتخب حکومت کا انجام بھی ماضی کی حکومتوں سے مختلف نہیں ہوگا،وزیراعظم عمران خان سے ہونے والی مایوسی اس لئے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ ان سے عوام کی امیدیں اور توقعات بہت زیادہ ہیں۔