ن لیگ میں کیا ہو رہا ہے ؟

Last Updated On 22 January,2019 09:49 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کا مستقبل کیا ہوگا اس حوالے سے اسلام آباد میں مختلف نظریات زیر گردش ہیں تاہم تمام حلقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ن لیگ میں جو کچھ ہوگا یہ ڈیڑھ سے 2 ماہ میں واضح ہوجائے گا، باخبر حلقے چودھری نثار علی خان کی خاموشی کو بھی اس سلسلے کی کڑی قرار دے رہے ہیں، چودھری نثار کے ساتھ بہت سے ارکان اسمبلی رابطے میں ہیں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، چودھری نثار علی خان نے گزشتہ ہفتہ لاہور میں لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کے خاندان کے ساتھ ان کے گھر پر ملاقات کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کا مستقبل کیا ہے خود لیگی ارکان پارلیمنٹ اور پارٹی عہدیدار اس بارے میں تجسس رکھتے ہیں، یہ افواہیں عام ہیں کہ شریف خاندان کسی نہ کسی سطح پر مقتدر حلقوں کے ساتھ رابطوں میں ہے، ن لیگ کے اندر ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ مقتدر حلقوں سے بات چیت ہو رہی ہے، اس بارے پارٹی کے سینئر ترین رہنما بھی لاعلم ہیں، یہ بات طے ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پورا خاندان (نوازشریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز ) متفق ہے، مریم نواز نے بھی والد، چچا اور دادی کی رائے کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے، پوری فیملی کا اتفاق ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے خاندان اور ن لیگ کیلئے اس سے بہتر آپشن اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ رپورٹ کے مطابق پارٹی کے اندر یہ رائے موجود ہے کہ ‘‘ووٹ کو عزت دو’’ کے بیانیہ پر ہی ن لیگ کو ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ ملے ہیں،تو پھر اس بیانیہ پر خاموشی کیوں ہے، بیانیہ کیوں تبدیل ہوا ؟ جارحانہ طرز سیاست والے ہارڈ لائنرز کا خیال ہے کہ بیانیہ کو جاری رکھا جاتا تو زیادہ بہتر نتائج مل سکتے ہیں، یہ دھڑا جاننا چاہتا ہے کہ اگر بیانیہ تبدیل ہوا اور طرز سیاست بدلی توہمیں اعتماد میں لیا جاتا اور بتایا جاتا کہ اس سے کیا فوائد حاصل ہوں گے، اپنے طور پر بیانیہ میں تبدیلی اور خاموشی پر کئی سینئر رہنما بھی سوال اٹھاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس ایک مؤ ثر دھڑا بیانیہ کی تبدیلی اور خاموشی پر اتفاق کرتا ہے اور اس کے حق میں دلائل رکھتا ہے تاہم یہ دھڑا بھی اندر کی کہانی سے لاعلم ہے۔

پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی کئی ارکان اسمبلی نے اس پر صدر شہباز شریف سے استفسار کیا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب حاصل نہ کر سکے، گومگو کی صورتحال نے ن لیگ کے اندر وسوسوں اور اندیشوں کو جنم دیا ہے، مزید برآں فیصلوں کا اختیار نواز، شہباز کس کے پاس ہے، بیانیہ کی تبدیلی کا فیصلہ کیونکر ہوا، ن لیگ مزاحمتی اور احتجاجی سیاست سے کیوں گریز ہے اور بار بار کہا جاتا ہے کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائیں گے نہ حکومت گرائیں گے بلکہ اس قسم کی کوشش میں شامل نہیں ہوں گے حالانکہ وزیراعظم عمران خان کی تبدیلی کے لئے صرف آدھا درجن ارکان اسمبلی کی حمایت درکار ہے جوکہ متحدہ اپوزیشن کیلئے ناممکن ٹاسک نہیں ہے، رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے باخبر حلقے کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف جلد جیل سے باہر ہوں گے اور کچھ عرصہ کیلئے بیٹی مریم کو لے کر لندن عازم سفر ہوجائیں گے، جبکہ شہباز شریف پارلیمان کی سیاست کریں گے، انہیں بھی ریلیف ملنا شروع ہوجائے گا، شریف خاندان کو ریلیف کی فراہمی اس بات سے مشروط ہوگی کہ وہ عمران خان حکومت کو چلنے میں کس حد تک تعاون و مدد کرتے ہیں یا رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف کیخلاف نیب مقدمات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ بھی مارچ تک واضح ہوجائے گا۔

بعض باخبر حلقے مائنس شریف فیملی کا بھی دعویٰ کر رہے ہیں اس صورت میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال اہم ہوں گے، خواجہ سعد رفیق جو ن لیگ کے سینئر لیڈر شپ میں شامل ہیں، ان کیخلاف نیب مقدمات کی نوعیت واضح ہے ان کو ریلیف ملنا یقینی ہے، اسی تناظر میں چودھری نثار جو بظاہر خاموش ہیں لیکن ن لیگی ارکان اسمبلی، رہنماؤں کے ساتھ رابطوں میں ہیں، رانا تنویر، سردار ایاز صادق اور چودھری نثار کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں گزشتہ ہفتے چودھری نثار نے سابق صوبائی وزیر اشفاق سرور سے لاہور میں ملاقات کی اور خواجہ سعد رفیق کے گھر گئے انہوں نے بیگم سعد رفیق اور ان کے بچوں کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی اور خواجہ سعد، خواجہ سلیمان کے لئے نیک خواہشات کے ساتھ ساتھ سیاسی مشوروں پر پیغام بھی چھوڑ آئے۔ روزنامہ’ دنیا ‘سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ن لیگ نواز شریف کے نظریہ پر قائم ہے، صدرشہباز شریف سمیت تمام رہنما اس نظریے کے پابند ہیں، پی پی اور تحریک انصاف کارکردگی کے حوالے سے ہمارے نصف تک بھی نہیں شریف خاندان کی نہ کوئی ڈیل ہو رہی ہے اور نہ این آر او مانگا جارہا ہے، تنظیم سازی پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے نئے لوگ شامل کیے جارہے ہیں اس تمام عمل کی نگرانی نواز شریف خود جیل میں بیٹھ کر کر رہے ہیں، اناڑی حکمرانوں کے خلاف مزاحمت یا عدم اعتماد کی ضرورت نہیں یہ اپنے بوجھ تلے دب کرسیاسی موت مر جائیں گے۔