27 ویں ترمیم - بڑی تبدیلیاں

Published On 13 November,2025 10:16 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) 27ویں ترمیم ہوگئی بلکہ مقرر کی گئی 14 نومبر کی ڈیڈ لائن سے قبل ہی منظور کر لی گئی، سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی دو تہائی اکثریت سے اپنا فیصلہ سنا دیا، یوں تو 27 ویں آئینی ترمیم میں 59 ترامیم کی گئی ہیں مگر اصل بڑی ترامیم چار ہیں۔

جن میں آرٹیکل 175، آرٹیکل 200، آرٹیکل 243 اور آرٹیکل 248 میں بنیادی ترامیم شامل ہیں، سب سے زیادہ توجہ آئینی استثنیٰ سے متعلق ترامیم نے حاصل کی جب پیپلزپارٹی کے مطالبے پر صدر مملکت کیلئے تاحیات استثنیٰ نے بحث کو جنم دیا، خود حکومت اس ترمیم کے حق میں دکھائی نہیں دیتی تھی مگر پیپلز پارٹی کے اصرار پر حکومت کو اس کی حمایت کرنا پڑی کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بغیر دو تہائی اکثریت ممکن نہیں تھی۔

وزیر اعظم پاکستان کو استثنیٰ دینے سے متعلق بھی تجویز سینیٹر انوشہ رحمان و دیگر سینیٹرز کی جانب سے پیش کی گئی مگر وزیر اعظم کی جانب سے یہ ترمیم واپس لینے کی ہدایت جاری کی گئی،۔ ایکس پر ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ چند سینیٹرز نے وزیر اعظم کے استثنیٰ کے حوالے سے ترمیمی شق سینیٹ میں پیش کی جو کابینہ سے منظور شدہ مسودے میں شامل نہیں تھی، سینیٹرز کے خلوص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں یہ ترمیم فی الفور واپس لینے کی ہدایت کی ہے۔

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسا کیا جانا ایک سیاسی چال بھی تھی اور صدر مملکت کے تاحیات استثنیٰ سے متعلق پیپلز پارٹی کے مطالبے پر سیاسی اور اخلاقی دباؤ ڈالنا بھی تھا مگر پیپلز پارٹی ڈٹی رہی اور 248 میں ترمیم کروا کر ہی دم لیا، آئین کے آرٹیکل 248 کی ذیلی شق 2 کے مطابق صدر اور گورنرز کو ان کے عہدے کی معیاد کے دوران فوجداری مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے اور ان کی گرفتاری یا قید کیلئے کوئی حکم جاری نہیں ہو سکتا، مگر نئی آئینی ترمیم کے بعد اب صدر کے خلاف تاحیات کوئی فوجداری مقدمہ نہیں بن سکے گا اور نہ ہی کوئی عدالت ان کی گرفتاری یا قید کیلئے کوئی حکم جاری کر سکے گی۔

اس ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر صدر مملکت عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد کوئی اور پبلک آفس ہولڈ کریں گے تو صرف اس دورانیے میں یہ استثنیٰ ختم ہوگا۔

آئین کے آرٹیکل 243 جو کہ کمانڈ آف آرمڈ فورسز سے متعلق ہے میں اہم ترامیم کی گئی ہیں، اس آرٹیکل میں 8 ترامیم متعارف کرائی گئی ہیں، جن کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے، یعنی چیف آف آرمی سٹاف تمام مسلح افواج کے سربراہ ہوں گے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا عہدہ 27 نومبر 2025ء سے ختم کر دیا گیا ہے، وزیراعظم پاکستان چیف آف آرمی سٹاف کی سفارش پر کمانڈر نیشنل سٹریٹجک کمانڈ کی تعیناتی کریں گے۔

وفاقی حکومت مسلح افواج کے ارکان کو فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدے پر ترقی دے گی، ایسا آفیسر تاحیات یونیفارم میں رہے گا اور اس کا رینک اور مراعات بھی تاحیات ہوں گی، ان تینوں رینکس کو قومی ہیروز کا درجہ دیا گیا ہے اور انہیں ہٹانے کا طریقہ کار آئین کے آرٹیکل 47 سے مشروط کیا گیا ہے، آرٹیکل 47 صدر مملکت کے مواخذے سے متعلق ہے جس کیلئے پارلیمان کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ معاملہ قومی ہیروز کا ہے تو اس رینک کو ہٹانے کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہونا چاہیے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فیلڈ مارشل ، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے رینکس تاحیات ہیں مگر بطور سربراہ فورس ان کی کمانڈ کی مدت ان فورسز کے متعلقہ قوانین کے تحت پانچ سال ہی ہے، اگر پانچ سال پورے ہونے کے بعد وفاقی حکومت ان کے عہدوں میں توسیع دینا چاہے تو وہ اس کا اختیار ہوگا، یعنی فیلڈ مارشل عاصم منیر کی مدت ملازمت 2027ء تک یعنی پانچ برس ہے مگر ان کا رینک تاحیات رہے گا، ذرائع کے مطابق حکومت ایئر چیف کو مارشل آف ایئر کا رینک دینے کے معاملے پر بھی غور کر رہی ہے، فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدوں پر بھی آرٹیکل 248 کا اطلاق ہوگا۔

ستائیسویں آئینی ترمیم میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوگی، آئین پاکستان میں آرٹیکل 175 بی سے آرٹیکل 175 ایل تک نئی ترامیم شامل کی گئی ہیں، سپریم کورٹ کے زیادہ تر اختیارات وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو چکے ہیں، سپریم کورٹ اب صرف ہائیکورٹ سے آنے والی اپیلیں سنے گی، عوامی اہمیت کے معاملات جہاں بنیادی حقوق کا معاملہ ہو، اب وفاقی آئینی عدالت کے اختیار میں ہوں گے، ہائیکورٹ کے وہ فیصلے جن میں آئین کی تشریح کا سوال ہوگا تو یہ معاملہ بھی وفاقی آئینی عدالت میں ہی آئے گا۔

کسی قانونی سوال پر صدر مملکت کو اگر آئینی رائے مانگنی ہوگی تو اب سے یہ کام سپریم کورٹ کی بجائے وفاقی آئینی عدالت کرے گی، آئینی عدالت کے جج صاحبان کی عمر کی حد 68 سال ہوگی، وفاقی آئینی عدالت کا جج بننے کی اہلیت میں شامل کیا گیا ہے کہ وہ پاکستانی وفاقی آئینی عدالت کا جج بن سکے گا جو سپریم کورٹ کا جج رہ چکا ہو، یا پانچ سال تک ہائیکورٹ کا جج رہ چکا ہو، یا بیس سال سے ہائیکورٹ کا وکیل رہا ہو اور سپریم کورٹ کا وکیل ہو، وفاقی آئینی عدالت کا حکم سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں کیلئے بائنڈنگ ہوگا جبکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئینی عدالت کیلئے بائنڈنگ نہیں ہوگا۔

آئین کے آرٹیکل 200 میں ترمیم کر کے ججز کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو دے دیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن میں ان ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بھی شامل ہوں گے جہاں سے ججز کا تبادلہ مقصود ہوگا، ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی ان کی پہلی تقرری سے جانچی جائے گی، اپنے تبادلے کو تسلیم نہ کرنے والے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہوگا اور اسے یہ تبادلہ تسلیم نہ کرنے کی وجوہات دینا ہوں گی، سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جج کو کام سے روک دیا جائے گا، آئین کے آرٹیکل 93 میں ترمیم کر کے وزیر اعظم کے مشیروں کی تعداد پانچ سے بڑھا کر سات کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

26 ویں ترمیم کے مقابلے میں 27 ویں ترمیم زیادہ آسانی سے منظور ہوئی، حکومت پہلے سے زیادہ با اعتماد نظر آئی اور اب 28 ویں ترمیم کی باتیں بھی شروع ہو چکی ہیں جن میں این ایف سی سمیت دیگر وہ تمام ایشوز آسکتے ہیں جن پر ستائیسویں ترمیم میں ڈیڈ لاک دیکھا گیا۔