لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پنجاب حکومت کی جانب سے ڈاکٹرز کی رپورٹ پر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل سے سروسز ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، ڈاکٹروں نے ان کی ناساز طبیعت کے پیشِ نظر انہیں کسی اچھے ہسپتال میں منتقل کرنے کی سفارش کی تھی۔
سروسز ہسپتال منتقلی کے بعد تین رکنی میڈیکل بورڈ نے نوازشریف کا معائنہ کیا۔ نواز شریف کی جیل سے سروسز ہسپتال منتقلی کے اقدام کے سیاسی منظر نامہ پر اثرات کیا ہوں گے؟ کیا سابق وزیراعظم نوازشریف کی صحت کو واقعتاً خطرات لاحق ہیں؟ یہ سارا عمل واقعتاً قانون اور میرٹ کی بنیاد پر ہے یا اس کے پیچھے بھی کچھ اور عوامل کارفرما ہیں؟ ‘‘عمرانی عہد’’ جس میں ریاست برداشت کے کلچر کو تیزی سے کھوئے جا رہی ہے اور آئے روز پارلیمنٹ میں کسی نوجوان پارلیمنٹیرین کی ایک شعلہ بار تقریر کے رد عمل میں مچھلی منڈی کا منظر نظر آتا ہے مگر آئے روز کی اس خرابی کے باوجود حکومت کے کسی حلقے میں یا پسِ پردہ کچھ ایسے اصحاب موجود ہیں جو کوچہ سیاست کی رونق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اسی طرح ایک مستحسن فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں اپوزیشن لیڈر پارلیمانی روایت کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تسلیم کر لئے گئے۔ میاں نواز شریف کو دل کا عارضہ انکے عہد اقتدار میں لاحق ہو گیا تھا اور اُس کے بعد سے پے در پے آزمائشوں اور مصیبتوں کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ نواز شریف کی صحت کی خرابی میں کئی وجوہات مضمر ہیں مگر سب سے بڑی وجہ بظاہر ان کے سیاسی کردار کے خاتمے کی کوششیں اور دوسرا ان کی رفیقہ حیات بیگم کلثوم نواز کی وفات ہے۔
اب شریف برادران سے موجودہ سلوک زبانِ حال سے کیا کہہ رہا ہے؟ حاصل یہی ہے کہ صورتحال مکمل پلٹی نہیں تو جزوی طور پر بدل رہی ہے۔ شہباز شریف کے ایک صاحبزادے پہلے سے لندن میں ہیں اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز بیرونِ ملک پہنچ چکے ہیں تو یہ سب صورتحال کسی ڈیل نہیں تو پھر ڈھیل کی خبر ضرور دے رہی ہے اور اس کے اثرات لازماً پارلیمنٹ کے فلور بھی ہونے چاہئیں۔
اپوزیشن اگر پارلیمنٹ کے فلور پر تعاون پر آمادہ نہیں ہو گی تو پھر یہ یکطرفہ ‘‘لنچ’’ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ صورتحال یہ بھی بتا رہی ہے کہ تحریک انصاف کا سخت لب و لہجہ تو وہیں موجود ہے مگر شریف فیملی کو بظاہر ملنے والی رعایتیں بتا رہی ہیں کہ شریف فیملی کی ڈیلنگ کہیں اور ہو رہی ہے، وہ جن پر الیکشن کے نام پر سلیکشن کے الزام لگ رہے ہیں۔ یہ سارا عمل اور رعایتیں بظاہر تو قانون اور میرٹ کے اندر رہتے ہوئے ہو رہی ہیں مگر ملک کی الجھی ہوئی سیاسی صورتحال میں ہمیشہ کچھ ایسے اقدامات بھی ضرور کئے جاتے ہیں جن میں حکومتِ وقت اور موجودہ سیاست کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔
2000ء کے بعد کی سیاست پر نظر ڈالیں تو این آر او ہوا تھا اور اس وقت سیاسی ماحول میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اب کی بار کچھ ایسا ہوا تو پھر کس ملک کے ایما پر ہو گا؟ یا ایک اور صورتحال نواز شریف مخالف کیمپ کو در پیش ہے اور وہ ہے عوام میں نواز شریف کی پذیرائی جو اصل پریشانی بنی ہوئی ہے۔
نواز شریف سیاسی عمل سے باہر ہیں مگر آج بھی عوام کے اندر بحث کا اصل موضوع ان کا عہد اقتدار، معاشی پالیسیاں اور ان کی سیاسی شخصیت ہے۔ میرا ذاتی احساس یہی ہے کہ لمحہ موجود میں نوازشریف کا عوامی حلقوں میں موجود رہنا دردِ سر بنا ہوا ہے اور جیل سے باہر نوازشریف کو رکھنا (لندن بھیج دینا) خود نواز شریف مخالف کیمپ کی خواہش ہو سکتی ہے مگر نوازشریف خود اس صورتحال کو بھانپ چکے ہیں اور اسے حکومتی کمزوری جانتے ہوئے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کے مطابق وہ کسی وقت اپنی چپ کا روزہ توڑیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور حکومت کہاں کھڑی ہے۔
عوامی حلقے آج بھی نواز شریف کے خلاف تمام اقدامات کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کا سلسلہ سمجھتے ہیں جس کے تحت پہلے انہیں اقتدار سے باہر کیا گیا، پھر ان کا سیاسی کردار ختم کرنے کیلئے ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے گئے لیکن آج بھی دیکھا جائے تو ملک کی سب سے بڑی شخصیت نوازشریف ہیں اور ملک کی سیاست نواز مخالف اور نواز شریف کے حق میں ہونے کے گرد گھوم رہی ہے۔ جب تک یہ صورتحال برقرار رہے گی تب تک کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نواز شریف جیل میں ہوں، ہسپتال میں ہوں یا کسی کی خواہش پر ملک سے باہر۔