اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ہمیں مذاکرات کے لئے پاکستان جانے سے روک دیا گیا۔ طالبان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے طالبان کے وفد کو مذاکرات کے لیے پاکستان جانے سے روک دیا کیونکہ اُن کے وفد کے 9 اراکین اقوامِ متحدہ اور امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے نمائندے جانے کے لیے آمادہ تھے اور تیاریاں بھی تھیں۔ بیان میں دورہ نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ نئی تاریخ طے کی جائے گی۔ طالبان کے ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ طالبان کے رہنماؤں کا پاکستان کا دورہ معطل کر دیا گیا۔
طالبان ذرائع نے بتایا کہ اُن کے امیر ملا ہیبت اللہ کہتے ہیں کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے ملنا اچھا نہیں ہوگا۔ اِس سے پہلے 13 فروری کو طالبان کا بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ قطر میں اُن کے سیاسی دفتر کے کچھ ارکان 18 فروری کو اسلام آباد جائیں گے اور زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کریں گے۔ یہ وہی امریکی ٹیم ہے جس سے قطر میں بھی طالبان کی کئی مرتبہ ملاقات ہو چکی ہے۔
طالبان کے بیان کے مطابق اِس مرتبہ اِسی سلسلے میں یہ ملاقات اسلام آباد میں ہو گی، بیان میں کہا گیا کہ اسی دورے میں وہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملیں گے اور پہلے کی طرح اِس مرتبہ بھی طالبان کے رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی کی قیادت میں یہ ملاقات ہو گی۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے امن عمل، زلمے خلیل زاد کی آمد بھی منسوخ ہو گئی ہے۔
طالبان ترجمان کے مطابق افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ طالبان کے سیاسی نمائندے اقوام متحدہ اور امریکی پابندیوں کی وجہ سے سفر نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے یہ ملاقات ملتوی کرنا پڑی۔ انہوں نے کہاکہ طالبان ملاقات کی منسوخی کے ذمہ دار نہیں کیونکہ طالبان نے اس ملاقات کیلئے تیاری کی تھی۔ انہوں نے ان رپورٹس کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا کہ یہ ملاقات طالبان نے منسوخ کی ہے۔