کشمیری عوام بہت مشکل میں ہیں، جنگ مسئلے کا حل نہیں: محبوبہ مفتی

Last Updated On 26 February,2019 11:34 am

لاہور: (دنیا نیوز) مقبوضہ جموں وکشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، بھارتی فوج کی تعداد بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

دنیا نیوز کے پروگرام ”دنیا کامران خان کے ساتھ“ خصوصی انٹرویو میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ پلوامہ حملے میں فوجیوں کی ہلاکتوں کا سارا غصہ کشمیریوں پر نکالا جا رہا ہے، ہر طرف کشمیری طلبہ اور تاجروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ جب دو ملک لڑتے ہیں تو کشمیریوں پر مصیبت آ جاتی ہے۔ پلواما کے بعد ہزاروں کشمیری بچے بھارت چھوڑ کر واپس آئے۔

محبوبہ مفتی نے کہا کہ بدقسمتی سے کشمیری الیکشن کو بری طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ افضل گرو کو 2014ء کے الیکشن سے پہلے پھانسی دی گئی۔ افضل گرو پھانسی کے عدالتی فیصلے کا خمیازہ کشمیر کو بھگتنا پڑا۔ اب الیکشن تک نجانے کیسا ماحول ہو، ہمارے سر پر تلوار لٹک رہی ہے، جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں، کشمیری عوام بہت مشکل میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر پر واجپائی کے دور میں اچھی پیش رفت ہوئی تھی۔ نریندر مودی نے نواز شریف کو حلف برداری میں بلایا اور خود لاہور گئے لیکن بدقسمتی سے پٹھان کوٹ اور اڑی کے بعد معاملات بگڑے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارتی حکومت کو آمادہ کرے کہ جذباتی فیصلہ نہ کرے۔ ایسی تدبیر کی جائے کہ ٹکراؤ نہ ہو، کشمیریوں کا بھلا ہو جائے گا۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں، بات ہو سکتی ہے تو جنگ میں کیوں جائیں۔ موجودہ ماحول میں امن کی سوچ رکھنے والوں کو آگے آنا چاہیے۔ امریکا بھی اتنے برسوں بعد بھی افغانستان میں مذاکرات کر رہا ہے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ثبوت دیں تو ایکشن ہوگا، امید ہے ایسا ہی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پلوامہ حملے کے بعد بہت سختی ہو گئی ہے، غصہ کشمیریوں پر نکالا جا رہا ہے۔ پکڑ دھکڑ اور گرفتاریاں درست نہیں، جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ میں کشمیر سے متعلق 35 اے کا کیس چل رہا ہے۔ کشمیریوں کو تنگ نہ کرنے کے عدالتی حکم پر شکر گزار ہیں۔

محبوبہ مفتی نے کہا کہ گزشتہ 30 سال میں مسئلہ کشمیر نے تشدد کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں فوج کی تعداد بڑھانے سے معاملات مزید الجھیں گے۔ ایسا حل نکالنا ہوگا جو کشمیریوں، بھارت اور پاکستان کو قابل قبول ہو۔

انہوں نے بتایا کہ بی جے پی نے شرائط مانی تھیں تب ہی اتحادی حکومت بنائی تھی۔ بی جے پی سے اتحاد میں کئی علاقوں سے فوج کو نکالنا طے ہوا تھا۔ بی جے پی کیساتھ طے پایا تھا کہ آرٹیکل 370 میں ردوبدل نہیں کیا جائیگا۔ میری حکومت کو بھی کریک ڈاؤن کا کہا تھا مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ہاتھ نہ لگانے دیا۔ جب میں حکومت میں تھی میں نے کہیں اپنا موقف نہیں بدلا۔ مجھ پر پاکستان اور حریت سے نرم پالیسیوں کا الزام لگایا جاتا تھا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ بھارت کو پاکستان اور حریت قیادت سے بات چیت کرنی ہوگی۔ پاکستان ہمارا ہمدرد ہے تو دونوں ملکوں کو کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔