ملتان: (دنیا نیوز) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہماری بااعتماد خفیہ معلومات کے تحت بھارت سولہ سے بیس اپریل کے درمیان پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ انڈیا نے اگر ایسا کچھ کیا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
ملتان سرکٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہندوستانی افواج کے تینوں جرنیلوں نے مودی سے تفصیلی ملاقات کی اور ان سے پاکستان پر حملے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹارگٹس بھی چن لئے ہیں جس پر مودی نے کہا کہ آپ کو حملے کی اجازت ہے۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پلواما جیسا واقعہ ہو سکتا ہے۔ پلواما واقعہ کے بعد چھبیس فروری کو بھارت نے پاکستان کے خلاف کاروائی کی۔ پاکستان پر بھارت نے کارروائی کی دنیا خاموش رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں جبر اور تشدد بڑھا ہے۔ بھارت میں ممکنہ آئینی ترمیم کی وجہ سے کشمیر میں بھونچال آ چکا ہے۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کا ساتھ دے گا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ آج بھارت کی اصلیت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ بھارت کے کہا کہ پاکستان میں تین دہشت گردوں کمپس کو نشانہ بنایا جو جھوٹ تھا۔ بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ ایف سولہ طیارہ پاکستان کا گرایا تھا۔ امریکا نے تصدیق کر لی ہے کہ پاکستان کا کوئی ایف سولہ طیارہ نہیں گرایا گیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کا مسئلہ بہت سنجیدہ ہے۔ بھارت کشیدگی کو بڑھاتا رہا اور پاکستان کشیدگی کم کرتا رہا۔ بھارت سرکار نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پورے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس اطلاع کو انٹرنیشل کمینٹی کو بتائیں۔ دنیا جانتی ہے پاکستان نے ذمہ دارانہ رویہ اپنایا۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ بھارت نے کردار غیر ذمہ درانہ تھا۔
ایل او سی کی صورتحال بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ جاری ہے۔ پاکستان پھر بھی بردباری کے ساتھ کام لے رہا ہے۔ بھارت کے پائلٹ کو واپس کر کے ہم نے امن کا پیغام دیا۔ اس کے علاوہ کرتارپور راہداری کو نبھانے کے لیے بھارت سے مثبت مذکرات کیے۔ دو اپریل کو بھارت کے سفارکاروں نے پاکستان واہگہ آنا تھا لیکن بھارت نے یہ میٹنگ کینسل کر دی۔
وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان کل بھی امن چاہتا تھا اور آج بھی امن چاہتا ہے۔ بھارت اگر الیکشن کے بعد ہم سے بات چیت کرنے کو تیار ہے تو ہم بھی بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا کہتا ہے کہ مغربی سرحد پر امن ہو اور پاکستان امن کا کردار ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن قومی سلامتی کے ایشو پر ہم ایک ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے بھی میں نے انہیں مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اگر پاکستان پر کوئی بات آتی ہے تو امید ہے اپوزیشن ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی۔