لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) امریکہ کے فارن پالیسی میگزین نے اپنی رپورٹ میں بھارتی جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ دیا اور بتایا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے ایف 16 گرائے جانے کے الزام میں کوئی صداقت نہیں اور رپورٹ میں اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ پاکستان کے پاس ایف 16 کی تعداد پوری ہے اور خود اس پر ایف 16 بنانے والی کمپنی اور امریکی حکام نے بھی اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور خود انڈین میڈیا میں نریندر مودی سرکار کی ناقص پالیسیوں پر یہ سوال کھڑا ہونا شروع ہو گیا ہے۔
پاکستان کا تو اپنے ایف 16 کے حوالے سے مؤقف بین الاقوامی سطح پر تسلیم کر لیا گیا۔ اس پر بھارت کو سبکی اٹھانا پڑی ہے تو اب بھارت اپنے مگ 21 کے بارے میں دنیا کو بتائے کہ وہ کس حال میں ہیں اور ان کی تعداد کتنی باقی رہ گئی ہے اور کیا وجہ ہے کہ دو مگ 21 پاکستانی پائلٹس کے ہاتھوں گرنے کے ساتھ دیگر 6 مگ 21 کیونکر ضائع ہوئے ان کے تباہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں اور ایسی رپورٹس بھی آنا شروع ہو چکی ہیں کہ بھارت کی جانب سے پلواما واقعہ کے بعد پاکستان پر حملہ کی کوشش اور پاکستانی فضائیہ کے بھرپور جواب کے بعد خود بھارتی فضائیہ ایک نفسیاتی کیفیت سے دو چار ہے اور اسی کیفیت کے باعث مگ 21 پے در پے تباہی کے عمل سے دو چار ہیں مذکورہ صورتحال کی روشنی میں بڑا سوال خود بھارت ریاست کی ساکھ کا کھڑا ہو چکا ہے۔ ایسا کیونکر ہوا، بھارت کی جنگی حکمت عملی ناکامی کے عمل سے دو چار کیونکر ہوئی ؟ اور خصوصاً یہ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت کے اتحادی امریکہ اور امریکی میڈیا ایسے سوالات اور رپورٹس سامنے لا رہا ہے جس سے بھارت کی پوزیشن متاثر ہوتی ہے ؟۔
فارن پالیسی میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی اہلکاروں نے اپنے اطمینان کے بعد بھارت کی جانب سے بولے جانے والے جھوٹ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے عالمی برادری کو گمراہ کیا ہے اور یہ طرز عمل خود بھارت کے حوالے سے اچھا نہیں۔ علاقائی صورتحال کا اور خود بھارتی کردار کا جائزہ لیا جائے تو بھارت میں نریندر مودی سرکار کے برسر اقتدار آنے کے بعد جہاں انتہا پسندی اور شدت پسندی میں اضافہ ہوا وہاں جنگی جنون کا مسئلہ بڑھتا گیا اور اس کیفیت نے خود بھارت جیسی علاقائی قوت کو دفاعی محاذ پر آنے پر مجبور کیا۔ وہ بھارتی حکومت جو پاکستان دشمنی اور اسلام دشمنی کے نام پر اپنی سیاست چمکانے اور انتخابات میں جیت کے ایجنڈا پر گامزن تھی۔ اس کی یہ حکمت عملی نے نہ صرف خود بھارت میں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی طور پر بھارتی ریاست کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے اور نریندر مودی حکومت کی جانب سے ہندو آبادی کے ووٹ توڑنے کیلئے پاکستان کی مخالفت کا ڈرامہ فلاپ ہو چکا ہے اور بھارت کے اندر یہ سوچ اور اپروچ ابھر رہی ہے کہ اس کی حکومت نے اپنے عوام کے جذباتی استحصال کی کوشش کی۔ لہٰذا بھارتی میڈیا اور ان کے دانشوروں کی جانب سے ایسے آرٹیکلز بھی ریکارڈ پر ہیں کہ امن اور خوشحالی خطے کی ضرورت ہے ، اس پر پیش رفت ہونی چاہئے نہ کہ جنگی جنون طاری کر کے علاقائی امن کو تباہ کیا جائے۔
اگر بھارت میں پیدا شدہ رجحانات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انتہا پسند لیڈر شپ کسی بھی ملک اور قوم کے مفادات کے حوالے سے خطرناک ہوتی ہے اور دنیا اب اس کی متحمل نہیں ہو سکتی اور خصوصاً بھارت جیسا ملک جو مسائل زدہ ہے اور سب سے بڑی آبادی کا بوجھ اس پر ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہاں کی حکومت اپنے عوام کے مسائل کے حل کے بجائے جنگی جنون طاری کر کے اپنے سیاسی مفادات سمیٹنا چاہتی ہے۔ بھارت کے جارحانہ طرز عمل کے جواب میں پاکستان اور پاکستان کی حکومت کے طرز عمل کو اس لئے پذیرائی ملی کہ پاکستان نے جنگ و جدل کے بجائے ڈائیلاگ اور امن کی بات کی اور گیند یہ کہہ کر دنیا کے کورٹ میں ڈال دیا کہ آپ آگے بڑھیں اور پاکستان اور بھارت کو ایک میز پر بٹھائیں۔ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر ایشوز پر ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں تو آخر بھارت اس سے گریزاں کیوں ہے ؟ اور خصوصاً کشمیر کے اندر پیدا شدہ صورتحال ایک بڑے انسانی مسئلہ کے طور پر سامنے آئی ہے اور مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ کے طور پر سامنے آیا ہے اور اس مسئلہ کے بغیر اب خطے میں استحکام ممکن نہیں اور اس حوالے سے بھارتی ضد اور ہٹ دھرمی جنوبی ایشیاکے امن کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔