لاہور (رپورٹ: طارق حبیب، عزیز خان، علی احتشام، احمد ندیم) دنیا میڈیا گروپ نے دس سالہ قمری کیلنڈر جاری کر دیا ہے جس کے ذریعے آئندہ ایک دہائی تک اسلامی مہینوں کے آغاز واختتام اور عیدین سمیت اسلامی تہواروں کی تاریخوں کو جانچا کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین نے دنیا میڈیا گروپ کی جانب سے تیار کردہ کیلنڈر کی تصدیق کر دی ہے۔ وزارت سائنس وٹیکنالوجی کی جانب سے قائم کردہ پانچ رکنی کمیٹی کی جانب سے اسلامی کیلنڈر جاری کرنے کے دعوے فقط میڈیا کی حد تک محدود تھے، مگر اس کمیٹی سے قبل ہی دنیا میڈیا گروپ نے سائنسی بنیادوں پر قمری کیلنڈر جاری کر دیا ہے جسے ماہرین کی جانب سے بھی درست قرار دیا گیا ہے۔
دس سالہ قمری کیلنڈر ڈائون لوڈ کریں: https://bit.ly/2JsExif
چاند کی رویت کا تنازع
رواں سال بھی رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی چاند کی رویت کا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔ سرکاری رویت ہلال کمیٹی نے منگل کو یکم رمضان کا اعلان کیا جبکہ پشاور کی قاسم جان مسجد کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے 22 شہادتوں کی بنیاد پر پیر کو پہلا روزہ رکھنے کا اعلان کر دیا تھا۔
ملک میں دو چاند دیکھ کر رمضان المبارک کا آغاز کرنا اور دو عیدیں منانے کی روایت کافی پرانی ہو چکی ہے، مگر اس بار اس تنازع میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی چودھری فواد حسین نے ماہ صیام کی آمد سے قبل ہی اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کر دیا کہ اب ملک میں چاند کا تعین پانچ رکنی کمیٹی کریگی اور یہ کمیٹی رمضان، عیدین اور محرم کے چاندوں کے اعلان سمیت دیگر اہم تاریخوں کا کیلنڈر بھی جاری کریگی، اس طرح ہر سال پیدا ہونے والا تنازع ختم ہو جائیگا۔
کمیٹی کے قیام کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق وزارت سائنس وٹیکنالوجی کے مشیر کی قیادت میں پانچ رکنی کمیٹی آئندہ پانچ سال تک رویت ہلال کے تعین کے لیے کام کرے گی۔
اس کمیٹی کے دیگر اراکین میں محکمہ موسمیات کے تین جبکہ سپارکو کا ایک نمائندہ شامل ہے جبکہ کسی مذہبی نمائندے کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان میں رویت ہلال کا تنازع نیا نہیں ہے۔ علماء کے درمیان اس حوالے سے دو چاند دیکھ کر رمضان المبار ک کا آغاز مختلف دنوں میں کرنا اور عیدین بھی مختلف دنوں میں منانا ایک پرانا مسئلہ ہے۔
رویت ہلال کا مسئلہ پاکستان میں ہمیشہ سے متنازع رہا۔ خیبر پختونخوا ( ہندکو ہزارہ کو چھوڑ کر)، قبائلی علاقوں، بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ہمیشہ سے افغانستان اور سعودی عرب کے چاند نظر آنے کے اعلان کے ساتھ عید منائی جاتی رہی ہے۔
باقی ملک میں ایک ہی دن روزہ اور ایک ہی دن عید منائی جاتی ہے۔ جنرل ایوب خان کے اقتدار کو طوالت ملی تو کچھ لوگوں نے یہ شوشا چھوڑ دیا کہ جمعہ کی عید جنرل ایوب خان کے اقتدار پر بھاری ہوگی۔ پھر پورے ملک میں اندھیرا ہونے تک چاند نہیں نظر آیا لیکن رات گئے راولپنڈی پہنچنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوا کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں چاند دیکھا گیا ہے۔
60ء کی دہائی کے آخری عشرے تک ملک میں مواصلات کی سہولتیں بہت کم تھیں۔ لوگوں کے پاس محدود ٹیلی فون تھے۔ شاید اسی وجہ سے اطلاع دیر سے پہنچی۔
کراچی کے سرکاری ملازمین کی آبادی جیکب لائن کی مسجد کے پیش امام اور جید عالم مولانا احتشام الحق تھانوی نے راولپنڈی سے جاری ہونے والے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا اور فتویٰ جاری کیا کہ جمعرات کو عید منانا غیر شرعی ہے، عید جمعتہ المبارک کو ہی منائی جائے گی۔ یوں کراچی سمیت کئی شہروں میں دو عیدیں منائی گئیں۔
دوسری بار یہ تنازع وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں پیدا ہوا۔ بھٹو صاحب نے مولانا کوثر نیازی کے ذریعے مولانا احتشام الحق تھانوی کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی قائم کرکے اس کی سربراہی قبول کرنے پر تیار کر لیا تھا۔ اس کمیٹی میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو نمائندگی دی گئی۔ اس طرح رویت ہلال کمیٹی 1974ء میں قائم کی گئی۔
رویت ہلال کمیٹی نے کبھی چاند نظر آنے کے بارے میں سائنس کی مدد لینے کے بارے میں نہیں سوچا، البتہ اس کے اجلاس محکمہ موسمیات کے دفتر میں منعقد ہونے لگے اور علماء کرام کی ایک دوربین کے ذریعے چاند دیکھنے کی تصاویر اخبارات کے صفحات پر شائع ہونے لگیں۔ ٹی وی چینلز مفتی منیب الرحمان کے اعلان ہلال کو براہِ راست نشر کرنے لگے۔
مگر پشاور کی قدیم تاریخی مسجد قاسم خان کے پیش امام مولانا پوپلزئی نے کبھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ یہ تنازع دہائیوں سے جاری ہے، مگر کبھی اسے حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔
سائنسی بنیادوں پر دنیا بھر میں موسم کی صورتحال کا قبل ازوقت تعین کر لیا جاتا ہے۔ مصر اور ترکی میں سائنسی کیلنڈر کے ذریعے تمام تہواروں کا تعین ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں فلکیات کے علم کے مطابق چاند کی پیدائش اور اس کے نظر آنے کے وقت کا بالکل درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اس سائنسی طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے چاند دیکھنے کے دعووں کو سچا اور جھوٹا قرار دینے سے گریز کریں۔
سائنسی بنیادوں پر چاند کی ولادت اور قمری کیلنڈر
کائنات میں دو سو بلین کے لگ بھگ کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں بذات خود اربوں ستاروں پر مشتمل ایک گروہ ہے جو کشش کی قوت سے ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔
ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے جس کے گرد آٹھ سیارے اور ہزاروں سیارچے گھوم رہے ہیں۔ سورج کے خاندان میں بعض سیاروں کے کئی کئی چاند ہیں جبکہ کئی سیاروں کا ابھی تک ایک بھی چاند دریافت نہیں ہوا ہے۔
اسی طرح ہمارے سیارے زمین کا ایک ہی چاند ہے جو زمین کے گرد 2288 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بیضوی شکل کے مدار میں گھوم رہا ہے۔ چاند 14 لاکھ 23 ہزار میل کا فاصلہ 27 دن 7 گھنٹے اور 34 منٹ میں مکمل کرتا ہے۔
آسمان پر موجود دیگر ستاروں کے حساب سے یہ چاند کا ایک مہینہ بنتا ہے لیکن چاند گردش کے دوران زمین کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور زمین سورج کے گرد گردش کے دوران کچھ آگے نکل جاتی ہے۔
اس لیے چاند کو مزید فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور اس طرح نئے چاند کا آغاز 29 دن 12 گھنٹے میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری مہینہ ساڑھے 29 دن جبکہ قمری سال 354 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
چاند کا مدار بیضوی ہونے کی وجہ سے چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ فاصلہ کبھی کم سے کم ہو کر 2 لاکھ 21 ہزار 463 میل رہ جاتا ہے اور کبھی بڑھ کر زیادہ سے زیادہ فاصلہ 2 لاکھ 52 ہزار 710 میل ہو جاتا ہے جبکہ چاند اور زمین کا اوسط فاصلہ 2 لاکھ 38 ہزار 840 میل ہی رہتا ہے۔
چاند کی پیدائش کے حوالے سے جاری بحث میں آنکھ سے چاند دیکھنے کے حوالے سے دلائل دے کر سائنسی طریقے سے چاند کی عمر جانچنے کے عمل کو رد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ نامناسب عمل ہے۔
سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ اب چاند کی پیدائش اور اس کی عمر کے حوالے سے کسی طرح کی بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اگر آنکھ سے چاند دیکھنے کے معاملے کو پرکھا جائے تو کھلی آنکھ سے چاند نظر آنے کے لیے صرف چاند کی عمر کا اعتبار کرنا ٹھیک نہ ہوگا۔
اس حوالے سے دوسرے عوامل کا پایا جانا بھی ضروری ہے جن میں چاند کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بلندی، مطلع کی صورتحال، چاند اور سورج کے غروب ہونے کا درمیانی وقفہ، (فیز آف مون) چاند کا روشن حصہ اور دیگر عوامل کا بہت گہرا عمل دخل ہے۔
اس کی نسبت سائنسی طریقے سے چاند کی عمر کے طریقہ کار کے ذریعے بہتر طریقے سے چاند کی پیدائش کے معاملے کو حل کیا جاسکتا ہے۔
نئے چاند کی عمر کے حوالے سے سائنس کیا کہتی ہے؟
سورج اور چاند کے ایک سیدھ میں آ جانے کا وقت ولادت قمر یا اجتماع شمس و قمر کہلاتا ہے اور اس حالت کو ”حالت محاق“ کہا جاتا ہے جبکہ ولادت قمر کے بعد گزرنے والا وقت ”چاند کی عمر“ کہلاتا ہے۔
عین ولادت کے وقت چاند کی عمر صفر ہوتی ہے۔ ولادت قمر کے وقت چاند کا جو نصف تاریک حصہ زمین کی طرف ہوتا ہے ہمیشہ وہی حصہ زمین کی طرف رہتا ہے۔
اسی تاریک حصے پر جیسے جیسے سورج کی روشنی زیادہ پڑتی جاتی ہے، اسی لحاظ سے چاند کی ہلالی شکل بڑھتی جاتی ہے۔ چاند کی پیدائش کے وقت اس پر پڑنے والی سورج کی تمام روشنی منعکس ہوتی ہے، مگر زمین تک نہیں پہنچ پاتی۔
اس وجہ سے چاند پیدائش کے وقت نظر نہیں آتا اور مکمل طور پر سیاہ ہوتا ہے۔ پیدائش کے بعد چاند اپنے مدار میں آگے کی جانب سفر شروع کرتا ہے جس کی وجہ سے زمین سے دیکھنے پر سورج اور چاند کے درمیان فرق زاویہ بڑھنے لگتا ہے، تو ہمیں اس کا چمکتا ہوا کنارہ نظر آتا ہے وہی کنارہ ”ہلال“ کہلاتا ہے۔
اس بارے میں ماہرین فلکیات کا اختلاف ہے۔ ولادت کے بعد چاند کی سورج سے کتنے درجے کی دوری پر چاند نظر آنے کے قابل ہوتا ہے، البتہ اس بارے میں چاردرجات بتائے جاتے ہیں۔ جس میں 8 درجہ پر، 10درجہ پر، 12 درجہ پر اور 13 درجہ پر چاند کا دیکھا جانا شامل ہے۔
اس حوالے سے بھی یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرہ ارض پر واقع مختلف ممالک میں چاند کے نظر آنے کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں اور درج بالا چار درجات میں سے کسی ایک درجہ پر چاند نظر آ جاتا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ چاند 10درجہ پر نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ چاند دو گھنٹے میں ایک درجہ طے کرتا ہے۔ اس حساب سے 10 درجے کے مطابق مہینے میں تقریباً 40 گھنٹوں کا وقفہ ایسا ہوتا ہے جس میں چاند نظر نہیں آتا۔
پھر چاند کی سورج سے مشرقی جانب دوری ان ہی درجات کی ترتیب کے مطابق 8 درجے، 10 درجے، 12 درجے یا 13 درجے ہو جاتی ہے تو وہ نظر آنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
اس طرح چاند کی ولادت کے بعد عمر درجات کی ترتیب کے مطابق 16 گھنٹے، 20 گھنٹے، 24 گھنٹے یا 26 گھنٹے (ملکی لحاظ سے) ہو تو چاند نظر آئے گا۔
پاکستان میں چاند کی ولادت کے 24 گھنٹے بعد انسانی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے البتہ چونکہ چاند کی پیدائش ہوچکی ہوتی ہے اس لیے اس کو سائنسی طریقہ کار سے ماپا جاسکتا ہے۔
قمری کیلنڈر
قمری مہینوں کو بنیاد بنا کر اور چاند کی درج بالا سائنسی طریقے کو مدنظر رکھتے ہوئے قمری کیلنڈر ترتیب دیا گیا ہے جس میں چاند کی رویت پر اثر انداز ہونے والے مندرجہ ذیل عناصر کو سامنے رکھا گیا ہے۔
نئے چاند کی روشنی کا تناسب
اس نقطے میں کیلنڈر کی ترتیب کے دوران اس حوالے سے خصوصی توجہ دی گئی ہے کہ چاند پیدائش کے بعد کتنے فیصد روشن حصہ پر مشتمل ہے اور سائنسی اعتبارسے وقع پذیر ہو چکا ہے۔
نئے چاند کے پہلے چوبیس گھنٹے
قمری کیلنڈر کی ترتیب کے دوران اس نقطے کا جائزہ لیا گیا ہے کہ پیدائش کے پہلے چوبیس گھنٹے مکمل ہونے کے بعد چاند کس فیزمیں ہے۔ اس نقطے کو مدنظر رکھنے کا مقصد سردیوں اور گرمیوں کے دوران چاند کی پیدائش کے فرق کو جانچنا تھا۔
نئے چاند کی بلندی (ایلٹی ٹیوڈ) اور فاصلہ
کیلنڈر کی ترتیب کے دوران اس نقطے کے ذریعے چاند کو غروب آفتاب کے زاویے کے حساب سے جانچا گیا ہے۔
غروب آفتاب کا وقت اور افق پر جگہ
سردیوں اور گرمیوں میں چاند کے غروب کا وقت چونکہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، اس لیے کیلنڈر کی ترتیب کے دوران روزانہ کے حساب سے چاند کے غروب کا وقت اور اس کی افق پر موجودگی کے نقطے کا سائنسی طریقے سے حساب رکھا گیا ہے۔