لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے کرپشن، لوٹ مار کے خلاف اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے جہاں کسی کی بلیک میلنگ میں نہ آنے کا اعلان کیا وہاں انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں لئے جانے والے بیرونی قرضوں اور ان کے استعمال پر کمیشن بنانے کا بھی کہا ، جس میں ان کے مطابق آئی ایس آئی، ایف بی آر، ایف آئی اے ، ایس ای سی پی اور آئی بی کے لوگ شامل ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کمیشن ان کی نگرانی میں کام کرے گا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی زیر نگرانی کوئی تحقیقاتی کمیشن غیر جانبدار کہلائے گا؟۔ وزیراعظم کو رات گئے قوم سے خطاب کی ضرورت کیونکر محسوس ہوئی، قرضوں کی تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام کے مقاصد کیا ہیں اور کیا پی ٹی آئی کی حکومت اپنے عزم اور ارادوں میں کامیاب ہو پائے گی ؟۔
وزیراعظم کے قوم سے خطاب سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ ملکی معاشی صورتحال پر واقعتاً پریشان ہیں اور عوام پر آنے والے معاشی دباؤ پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ انہوں نے انتخابات سے قبل جو وعدے کئے تھے اور قوم کے اندر ایک جذبہ، ولولہ پیدا کیا تھا وہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا اور ہر آنے والے دن میں مہنگائی کے طوفان نے انہیں پریشان کر رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر جذبات حاوی نظر آ رہے ہیں اور وہ اپنی فی البدیہہ تقریر میں جو دل میں ہوتا ہے وہ کہہ ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبان و بیان کی نزاکتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کے بعض جملے خود ان کے لئے مسائل کھڑا کرتے ہیں۔ بطور سیاستدان تو ان کے اس خطاب کو سراہا جا سکتا ہے مگر بطور وزیراعظم اس خطاب کے حوالے سے دو آرا موجود ہیں۔
وزیر اعظم قرضوں اور ان کے استعمال پر کمیشن ضرور بنائیں، لیکن وہ ہر حوالے سے پارلیمنٹ پر یا عدلیہ پر اعتماد کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ وہ ایجنسیوں اور اداروں کو ان میں کیوں الجھا رہے ہیں۔ حالات اس امر کے متقاضی ہیں؟، کم از کم سکیورٹی اداروں کی ساکھ کو برقرار رکھا جائے کیونکہ ان اداروں کے حوالے سے عوام کے اندر احترام ہے، جس پارلیمنٹ کی طاقت سے عمران خان مسند اقتدار پر پہنچے ہیں انہیں وہاں کمیشن بنانے کا اعلان کرنا چاہئے تھا اور غیر جانبدار اور اچھی شہرت کے حامل شخص کو اس کا سربراہ بنانا چاہئے تھا ۔ اگر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی کمیشن نتائج فراہم کر پائے گا تو ایسا کوئی کمیشن غیر جانبدار نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سارے معاملہ میں خود وزیراعظم کی حیثیت فریق بن جاتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت جس مرحلے سے گزر رہے ہیں ان کی اولین ترجیح تو ملک کے اندر سیاسی و اقتصادی استحکام ہونا چاہئے تا کہ ملک آگے کی طرف چلے اور ایک منتخب حکومت سے عوام کی جو امیدیں اور توقعات ہیں وہ پوری ہو سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو آئے نو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر ملک کے اندر بے چینی، مایوسی اور بے یقینی ہے۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں اور انہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ حکومت اپنی بنیادی ذمہ داری سے تساہل برتتے ہوئے کچھ ایسے بڑے اعلانات اور اقدامات کرنا چاہتی ہے جس سے ملک کی ابتر معاشی صورتحال پیچھے رہ جائے اور نئے ایشوز سامنے آئیں لیکن موجودہ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مؤثر احتساب اور قرضوں کی تحقیقات بہت ضروری عمل ہے جنہوں نے قوم و ملک کی دولت لوٹی انہیں بے نقاب کیا جانا چاہئے۔ یہ بھی بڑے ایشو ہیں مگر موجودہ حالات میں بڑا چیلنج معاشی چیلنج ہے۔ جمہوری گاڑی حکومت اور اپوزیشن ملکر چلاتی ہے اور اگر دونوں میں ڈیڈ لاک ہو اور حکومت سمجھے کہ وہ سولو ہی سسٹم چلا پائے گی تو یہ خواہش تو ہو سکتی ہے مگر عملاً ایسا ممکن نہیں ہوگا، کیوں کہ جمہوریت میں یک جماعتی نظام نہیں ہوتا۔