اسلام آباد: (دنیا نیوز) اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ یہ کمیشن 2008ء سے 2018ء تک قرضوں میں 24 ہزار ارب روپے اضافہ کیوں اور کیسے ہوا کی انکوائری کرے گا۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں انکوائری کمیشن سے متعلق امور پر غور کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور آڈیٹر جنرل اجلاس میں شریک ہوئے۔
جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں کمیشن کے ٹی او آرز کے مسودے پر غور کیا گیا۔ حکومت نے انکوائری کمیشن، پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017ء کے تحت قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیشن میں آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اور ایس ای سی پی کے سینئر افسر بھی شامل ہونگے۔
اعلامیہ کے مطابق انکوائری کمیشن قومی خزانہ خرچ کرنے والی تمام وزارتوں، ڈویژنوں اور متعلقہ وزیروں کی جانچ پڑتال بھی کرے گا۔
کمیشن دیکھے گا کہ کہاں فنڈز کا غلط استعمال ہوا جبکہ رقم کی واپسی کے لیے بھی کام کرے گا۔
کمیشن اس بات کا بھی جائزہ لے گا کہ اس مدت میں کوئی میگا منصوبہ شروع نہ ہونے کے باوجود اتنے قرضے کیوں لیے گئے؟
کمیشن میں آڈیٹر جنرل آفس،ایف ائی اے اور دیگر حکام بھی شامل ہوں گے۔ کمیشن 2008ء سے 2018ء تک قرضوں میں 24 ہزار ارب روپے اضافہ کیوں اور کیسے ہوا کی انکوائری کرے گا۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ چاہے میری جان چلی جائے لیکن چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ یہ ہم سے جواب مانگ رہے ہیں اور میں اب ان سے جواب مانگوں گا۔ اپوزیشن سڑکوں پر آنے کی دھمکی کسی اور کو دے، بلیک میل نہیں ہوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے گھر میں رہتا ہوں، کسی کا ڈر نہیں، میرا جو مرضی کرنا ہے کر لیں، میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔ سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا انکوائری کمیشن کے ذریعے دس سال میں لئے گئے قرضے کی تحقیقات کی جائے گی جس میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہوں گے۔
انہوں نے کہا انکوائری کمیشن کے ذریعے پتا لگائیں گے کہ یہ 24 ہزار ارب روپے کا قرضہ کیسے چڑھا۔ قوم کو پتا ہونا چاہیے کہ ان کے ملک کے ساتھ کیا ہوا۔