لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی عراق میں امریکی افواج کے حملہ میں ہلاکت کے عمل نے خطے میں نئی صورتحال پیدا کر دی۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مسلسل ایران میں اہم اداروں کے اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔ امریکی صدر نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر امریکی جھنڈے کی تصویر بھی لگا دی ہے جس کے ردعمل میں ایرانی سوشل میڈیا صارفین اپنے اکاؤنٹس سے بھی ایرانی جھنڈے کی تصویر شیئر کر رہے ہیں لہٰذا اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی حیثیت اور اہمیت کیا تھی۔ امریکہ اس کو ٹارگٹ کرنے پر کیونکر مجبور ہوا۔ امریکہ کے خلاف ایرانی دھمکیاں کس حد تک کارگر ہوں گی۔ خطے کی اہم قوتوں روس، چین و دیگر کا ردعمل کارگر بن سکے گا۔
جہاں تک جنرل قاسم سلیمانی کی حیثیت اور اہمیت کا سوال ہے تو انہیں ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اﷲ خامنہ ای کے بعد سب سے اہم حیثیت حاصل تھی اور وہ اپنی حکمت عملی اور اقدامات کے حوالہ سے رہبر اعلیٰ کو جوابدہ تھے اور انہیں خطے میں اپنے طرز عمل کے حوالہ سے جیمز بانڈ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ انہیں امریکہ نے کیونکر ٹارگٹ کیا اس حوالہ سے اطلاعات یہ ہیں کہ عراق کے اندر پچھلے دنوں مہنگائی، بے روزگاری کے ایشو پر ہونے والے مظاہروں اور ریلیوں کے حوالہ سے ایک عام تاثر یہ بھی تھا کہ ان کی وجہ سے ایران کے خلاف نفرت بھی سامنے آ رہی ہے جس بنا پر امریکیوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مظاہروں اور ریلیوں کے اس عمل کو اور تقویت دی اور اس حوالہ سے قدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے قاسم سلیمانی اس رجحان کے سدباب کیلئے سرگرم تھے اور انہیں عراق کے اندر بعض طبقات میں انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لہٰذا اپنے مقاصد میں امریکہ انہیں بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھ رہا تھا اور اس حوالہ سے انہیں ٹارگٹ کیا گیا اور وقت کا انتظار تھا۔
2017 میں جنرل قاسم سلیمانی کو اہم شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ عراق کے اندر ہونے والے مظاہروں میں جب امریکی سفارتخانہ کو آگ لگانے کا واقعہ رونما ہوا تو امریکہ اس نتیجہ پر پہنچ چکا تھا کہ اس علاقہ میں جنرل قاسم سلیمانی اس کے مقاصد اور مفادات میں بڑی رکاوٹ ہیں انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ جنرل قاسم سلیمانی ہیں جو حوثی باغیوں کو منظم کرنے، حزب اﷲ کو تقویت دینے اور خطہ میں امریکی مفادات کے خلاف سرگرم تنظیموں سے بھی رابطوں میں ہیں لہٰذا اب ان کی ہلاکت کے اس واقعہ کو ایران، عراق تنازعہ کے پس منظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے جس میں براہ راست سعودی عرب کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا لیکن ایران کی جوابی حکمت عملی اور اس کی جانب سے ممکنہ ردعمل کے حوالہ سے یہ امکانات ضرور ہیں کہ ایران شاید براہ راست امریکہ پر حملہ آور نہ ہو لیکن وہ اس خطہ میں امریکی اتحادیوں خصوصاً سعودی عرب، ابوظہبی یا اسرائیل کے خلاف کوئی بڑا ردعمل ضرور ظاہر کر سکتا ہے۔ وہ یہاں پر ایسی وار کی پوزیشن میں تو ہے لیکن بظاہر امریکہ پر حملہ آور ہونے کی پوزیشن میں نہیں۔
جہاں تک امریکہ کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کرنے کی ٹائمنگ کا سوال ہے تو ایک جانب خطہ میں امریکہ بظاہر پھنسا نظر آ رہا ہے۔ افغانستان سے اس کے قدم اکھڑ رہے ہیں تو دوسری جانب اس نے جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کر کے کم از کم اپنی انتخابی مہم کیلئے ایک بڑا ٹارگٹ ضرور حاصل کر لیا۔ جیسے اس سے قبل اسامہ بن لادن کو ٹارگٹ کر کے امریکی انتظامیہ نے اسے اپنی بڑی فتح قرار دیا تھا اور اس کا اصل فائدہ امریکہ میں حاصل کیا تھا۔ جہاں تک اس اقدام کے خطے میں اثرات کا تعلق ہے تو یقینا اس سے خطہ میں جنگ کے بادل تو منڈلاتے نظر آئیں گے خصوصاً مشرق وسطیٰ خصوصاً سعودی عرب، ابوظہبی سمیت دیگر امریکی اتحادی الرٹ ہوں گے۔ دوسرا اس کے اصل اثرات معاشی طور پر ظاہر ہوتے نظر آ رہے ہیں جس میں یہ امکان نظر آ رہا ہے کہ اس عمل کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور سیاسی حوالہ سے ایران کے اندر امن و امان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ جہاں تک جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کرنے کے عمل پر روس، چین، ایران و دیگر ممالک کے ردعمل کا تعلق ہے تو براہ راست اس کا امریکہ پر اس کی حکمت عملی پر تو اثر نہیں پڑے گا البتہ مشرق وسطیٰ سمیت پاکستان کیلئے نیا امتحان شروع ہوگا کیونکہ ایران کی جانب سے کسی قسم کے ردعمل کا براہ راست امریکہ پر تو اثر نہیں ہوگا۔
یہ تو خطے کا بڑا مسئلہ بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ذمہ داران خصوصاً امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ایران کے جواب میں ہر قسم کا ردعمل دینے کو تیار ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران عراق سمیت خطے میں پراکسی وار کا بڑا کردار ہے۔ جہاں تک عراق کے ردعمل کا سوال ہے تو جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھ ہلاک ہونے والوں میں عراقی ملیشیا کے کمانڈر ابو مہدی المہندس سمیت دیگر بھی شامل ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کو بین الاقوامی میڈیا میں ایرانی عزائم کا منصوبہ ساز، جنگ اور امن کے معاملات میں ملک کا اصل وزیر خارجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ وہاں ان کی اہمیت و حیثیت اور ان کے خلاف امریکی اقدام کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ ان کا قتل امریکہ ایران کے درمیان پیدا شدہ تناؤ میں ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا ردعمل ضرور آئے گا جس سے خطے میں حالات مخدوش ہوں گے اور خطے میں نئی خطرناک صورتحال طاری ہو سکتی ہے۔
نئی پیدا شدہ صورتحال میں پاکستان کو کوئی ایسا اعلان اور اقدام نہیں کرنا چاہیے جس سے وہ اس جنگ اور محاذ آرائی میں فریق کے طور پر سامنے آئے کیونکہ پاکستان کا جانبدارانہ کردار خود ہمیں جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں بنا پائے گا۔