لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) آرمی ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے بعد کیا نیب آرڈیننس میں بھی حکومت و اپوزیشن ملکر متفقہ ترمیم کر سکیں گی ؟ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن نے سر جوڑ لئے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نیب آرڈیننس سمیت الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تقرری کا عمل بھی افہام و تفہیم سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری مفاہمتی عمل اور ایشوز پر اتفاق رائے کا رجحان ملکی معیشت اور خصوصاً عوام کو در پیش بڑے مسائل کے سدباب کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
کیاپارلیمنٹ موثر احتسابی سسٹم کے حوالے سے سنجیدہ ہے ؟ کیا حکومت اور اپوزیشن اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں ؟ جہاں تک عدالتی تحفظات کی بات ہے تو عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کی جانب سے متعدد بار ان تحفظات کا اظہار ہوا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ نیب ثبوت بعد میں جمع کراتا ہے اور گرفتاری پہلے ڈال دیتا ہے۔ عدالتوں کی جانب سے وائٹ کالر کرائم پر تحقیقاتی عمل کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ پاکستان کا بڑا سیاسی المیہ یہ رہا ہے کہ پاکستان میں احتسابی ادارے بھی وجود میں آتے رہے مگر کرپشن اور لوٹ مار کا رجحان بھی بڑھتا رہا، اس کا مطلب یہ کہ احتسابی عمل میں کسی نہ کسی سطح پر کوئی خرابی موجود رہی۔
حکومتیں احتساب کے دعوے بھی کرتی رہیں اور احتسابی عمل اور اپنے سیاسی مفادات کیلئے ان اداروں کو استعمال بھی کرتی رہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کیلئے کرپشن کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے مگر احتسابی عمل کو موثر بنانے اور آگے بڑھانے کیلئے عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ لہٰذا اب نیب کے آرڈیننس کو موثر و نتیجہ خیز بنانے کیلئے پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست بدنام اس لئے ہوئی کہ بعض سیاست دانوں نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے جن کا بوجھ سارے اہل سیاست پر پڑا۔ آج اگر پارلیمنٹ کرپشن کیخلاف بند باندھنے میں کامیاب ہو گی تو یہ جمہوریت اور سیاست کی مضبوطی کے حوالے سے نیک شگون ہوگا۔