اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مشکل ہمسائیگی والے ماحول میں رہتے ہیں، ایران اور سعودی عرب کی جنگ پاکستان کے لیے تباہ کن ہوگی۔
وزیراعظم ہاؤس میں غیر ملکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب عظیم ترین دوستوں میں سے ایک ہے، ایران کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ ہمارا خطہ ایک اور تنازعے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں اس لیے آیا تھا کہ مجھے محسوس ہوا ہمارے ملک کے پاس بہت زیادہ صلاحیتیں اور امکانات ہیں۔ جب میں بڑا ہو رہا تھا تو ملکی معیشت ایشیا میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی اور 1960ء کے عشرے میں ترقی کے لیے ماڈل ثابت ہوئی تھی پھر ہم راستے سے بھٹک گئے۔ میرا سیاست میں آنے کا مقصد پاکستان کی انہی صلاحیتوں کا دوبارہ حصول تھا۔
ہمسایوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ درست ہے کہ مشکل ہمسائیگی والے ماحول میں رہتے ہیں اور ہمیں اقدامات کو متوازن رکھنا ہی ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب پاکستان کے عظیم ترین دوستوں میں سے ایک ہے اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے۔ پھر ایران ہے جسکے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات خراب نہ ہوں۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے جو ایک اور تنازعے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ایک اور سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان بھی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے بہترین کوششیں کر رہے ہیں، ایسا ملک جس نے 40 برسوں میں مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ طالبان، امریکا اور افغان حکومت مل کر قیام امن کی منزل حاصل کر لیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں وہ پہلا لیڈر تھا، جس نے دنیا کو اس بارے میں خبردار کیا تھا کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔ بھارت پر ایک ایسی خاص انتہا پسندانہ نظریاتی سوچ غالب آ چکی ہے، جو ہندوتوا کہلاتی ہے۔ یہ آر ایس ایس کی نظریاتی سوچ ہے۔ جرمن نازیوں سے متاثر ہو کر اور اس کے بانی نسلی برتری پر یقین رکھتے تھے۔
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے لیے المیہ ہے اور اس کے ہمسایوں کے لیے بھی کہ پر آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے، وہی آر ایس ایس جس نے عظیم مہاتما گاندھی کو قتل کرایا تھا۔ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ایک ایسا ملک ہے، جسے انتہا پسند چلا رہے ہیں۔ کشمیر گزشتہ پانچ ماہ سے مسلسل محاصرے کی حالت میں ہے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ جب میں وزیر اعظم بنا تو میں نے بھارتی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مکالمت کی کوشش کی۔ میں نے پہلی ہی تقریر میں کہہ دیا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم اپنے باہمی اختلافات دور کرنے کے لیے دو قدم آگے بڑھیں گے لیکن جلد ہی میں نے یہ دیکھ لیا کہ بھارت نے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کی وجہ سے اس پر کوئی بہت اچھا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔
کشمیر میں دورے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ دیکھیے اس کا پتہ چلانا بہت ہی آسان ہے۔ ہم دنیا کے کسی بھی حصے سے کسی کو بھی پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آئیے، پہلے اس طرف کے کشمیر کا دورہ کیجیے اور پھر بھارت کے زیر انتظام حصے کا۔ خود ہی فیصلہ کر لیجیے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں اور عوام ہی وہاں کی حکومت منتخب کرتے ہیں۔ دوسری انتظامیہ کی طرح ان کی بھی مشکلات ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ ہماری طرف سے دنیا بھر سے مبصرین کو بلا لیجیے۔ یقین ہے کہ مبصرین کشمیر کے پاکستانی حصے میں جا سکتے ہیں مگر انہیں کشمیر کے بھارتی حصے میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کشمیر سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا چاہتے ہیں۔ پاکستان کسی بھی ریفرنڈم یا استصواب رائے کے لیے تیار ہے۔ فیصلہ کشمیریوں کو خود کرنا چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزادی۔ افسوس ہے لیکن ایسا ہی ہو رہا ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہروں کو میڈیا کتنی توجہ دے رہا ہے۔ کشمیر کا المیہ تو اس سے بہت ہی بڑا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے مغربی ممالک کے لیے ان کے تجارتی مفادات زیادہ اہم ہیں۔ بھارت بڑی منڈی ہے اور 80 ملین کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ بھارت میں مجموعی طور پر اقلیتوں کے ساتھ بھی، اس پر بین الاقوامی برادری کے رویے میں قدرے سرد مہری پائی جاتی ہے۔ بھارتی شہریت کا کالا قانون واضح طور پر اقلیتوں کے خلاف ہے، خاص طور پر بھارت کے 200 ملین (20 کروڑ) مسلمانوں کے خلاف ہے، ان تمام امور پر دنیا کے خاموش رہنے کی وجہ زیادہ تر تجارتی مفادات ہیں۔
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر سے متعلق جرمنی بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ جرمنی یورپ کا مضبوط ترین ملک ہے اور یورپی یونین کا بہت بڑا رکن ملک بھی ہے۔ میں نے چانسلر انجیلا میرکل سے بات کی تھی تو میں نے انہیں ان امور کی وضاحت کی تھی یہ کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے اور انہوں نے دراصل اس بارے میں ایک بیان بھی دیا تھا جب وہ بھارت کے دورے پر تھیں۔
افغانستان سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ایک فائر بندی کی طرف پیشرفت جاری ہے۔ صدر اشرف غنی کے دوبارہ انتخاب کے بعد افغانستان میں نئی حکومت اقتدار میں آ چکی ہے۔ ہم امید کر رہے ہیں کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن سے وسطی ایشیا میں تجارت کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔ تب افغانستان ہمارے لیے بھی اقتصادی راہداری بن جائے گا جب افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا تو فائدہ ہمارے صوبے خیبر پختونخوا کے عوام کو بھی پہنچے گا جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ طالبان نے کچھ لوگوں کو یرغمال بنا رکھا تھا اور پاکستان کی مدد سے دو مغربی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو گئی۔ اس لیے، ہمارا جتنا بھی اثر و رسوخ ہے، ہم اپنی پوری کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چین کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر دو وجوہات کی بنا پر ہے، پہلی یہ کہ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے اس کا موازنہ اس کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جو کہا جاتا ہے کہ چین میں ایغور باشندوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چین ہمیشہ ہی ہمارا بہت قریبی دوست رہا ہے۔ چین نے مشکل حالات میں بھی ہماری بہت مدد کی جب میری حکومت کو ورثے میں پورا اقتصادی بحران ملا تھا۔ اس لیے ہم چین کے ساتھ مختلف امور پر نجی سطح پر تو بات کرتے ہیں لیکن عوامی سطح پر نہیں، کیونکہ یہ حساس معاملات ہیں۔