ریلیف پیکیج حقیقت پسندانہ مگر لاک ڈاؤن پر کنفیوژن کیوں؟

Last Updated On 25 March,2020 08:27 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کورونا کے اثرات اور اس کے نتائج سے نمٹنے کیلئے ریلیف پیکیج یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں کورونا کے نتیجہ میں معیشت پر ہونے والے اثرات عوام کو درپیش مشکلات اور روزمرہ زندگی میں رونما ہونے والے خطرات اور خدشات کا ادراک ہے۔ البتہ وزیراعظم کی جانب سے لاک ڈاؤن کے حوالہ سے یکسوئی کا فقدان خود ان کی حکومت کیلئے امتحان بنتا جا رہا ہے۔ عملاً صوبے لاک ڈاؤن کا اعلان کر چکے ہیں۔ مسلح افواج سویلین اداروں کی معاونت کیلئے میدان میں آ چکی ہیں اور اپنا کام کر رہی ہیں اگر وزیراعظم بروقت خود لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیتے تو اس کے اثرات زیادہ موثر اور نتیجہ خیز ہوتے لہٰذا مذکورہ پیکیج کے حوالہ سے یہ سوالات سامنے آ رہے ہیں کہ کیا یہ پیکیج اعلان تک محدود تو نہیں رہے گا۔ پیکیج کو عام آدمی تک پہنچانے کیلئے جس گورننس کی ضرورت ہے کیا وہ وفاق اور صوبوں کے پاس موجود ہے۔ کیا وجوہات ہیں کہ حکومت اس نازک صورتحال میں اپوزیشن کو اعتماد میں لینے سے گریزاں ہے۔ یکطرفہ اعلانات اور اقدامات کس حد تک اطمینان اور استحکام کا باعث بنیں گے۔ پٹرولیم قیمتوں میں کمی سے کسی حد تک عوام کو ریلیف ملے گا۔

جہاں تک غریب خاندانوں کو تین ہزار ماہانہ کی مدد کا تعلق ہے تو مہنگائی کے اس دور میں یہ ناکافی ہے اس مسئلہ پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ ایک منتخب حکومت سے مسائل زدہ عوام کو بہت سی توقعات ہوتی ہیں۔ وزیراعظم کو میڈیا بریفنگ میں لاک ڈاؤن کے حوالہ سے بعض تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا ان کے جواب سے کنفیوژن کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے کیونکہ جب وہ اٹلی، سپین اور چین کی مثال دیتے ہیں تو یہ امر حالات، واقعات اور نتائج کے حوالہ سے سامنے آ چکا ہے کہ کورونا کے بعد اگر وہاں بروقت لاک ڈاؤن کرایا جاتا تو اتنا بڑا انسانی المیہ جنم نہ لیتا۔ پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے حوالہ سے جن اقدامات کی بروقت ضرورت تھی وہ نہ ہوئے جس کی وجہ سے اثرات میں اضافہ ہوتا گیا۔ وزیراعظم کی جانب سے ریلیف پیکیج کو وقت کی ضرورت اور حقیقت پسندانہ قرار دیا جا سکتا ہے مگر بنیادی سوال یہ ہوگا کہ اس پیکیج پر کیا عملاً موثر عملدرآمد ہو سکے گا کیونکہ پاکستان میں حکومتیں سیاسی دباؤ کے تحت پیکیج کا اعلان تو کر دیتی ہیں مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا جس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔

اچھا ہوتا وزیر اعظم اپوزیشن قیادت کو بھی اعتماد میں لیتے تو اس سے قومی اتفاق رائے ظاہر ہوتا نہ جانے کیوں وزیراعظم ایک منتخب لیڈر ہونے کے باوجود اس امر کی اہمیت کو نہیں سمجھ پا رہے اور اس بڑے چیلنج سے نمٹنے کیلئے سولو پرواز چاہتے ہیں لیکن انہیں یہ امر نہیں بھولنا چاہئے کہ ایسے بڑے چیلنج میں ہمیشہ حکومتیں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ملک میں جاری صورتحال میں ابھی تک اپوزیشن کا کردار ذمہ دارانہ ہے خصوصاً دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ نے حکومت کو ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے بعض تجاویز دیں مگر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ حکومت اس پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی۔ اب تک کی صورتحال پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر نہیں علیحدہ علیحدہ سرگرم عمل ہیں جس سے عوامی سطح پر بھی تقسیم ہوگی جو ملک اور قوم کے لئے اچھی نہیں۔
 

Advertisement