افغانستان کو تنہا چھوڑ دینے سے ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے، معید یوسف

Published On 30 August,2021 05:53 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعطم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ افغانستان کے معاملہ پر ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھا جائے، افغانستان کو تنہا چھوڑ دینے سے ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ روابط کے ذریعے مخلوط اور میانہ رو حکومت کے قیام اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، دنیا افغانستان سے پناہ گزینوں کی ہجرت اور ممکنہ انسانی بحران کو روکنے کیلئے کام کرے۔

وہ ایک تقریب میں افغانستان کی صورتحال پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ انہوں نے افغانستان کے مسئلہ کا تاریخی پس منظر، امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے کردار اور پاکستان کو افغان تنازعہ کے باعث پہنچنے والے نقصانات اور اس کی قربانیوں کو اجاگر کیا۔

ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ 90ء کی دہائی میں بھی پاکستان نے افغانستان کے مسئلہ کے حل کیلئے مکمل تعاون فراہم کیا اور خطہ میں قیام امن کیلئے قربانیاں دیں لیکن افغانستان میں طویل جنگ اور بدامنی اور مہاجرین کی آمد کے باعث پیدا ہونے والے بڑے مسائل کا سامنا کرنے کیلئے پاکستان کو نہ صرف تنہا چھوڑ دیا گیا بلکہ بعد ازاں پابندیاں بھی عائد کر دی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان مکمل تباہی کا شکار تھا جن حالات میں طالبان سامنے آئے۔ معید یوسف نے کہا کہ ماضی میں عالمی طاقتوں کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کو تنہا چھوڑنا ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کے باعث افغانستان میں خلاء پیدا ہوا جسے پر کرنے کیلئے القاعدہ جیسی تنظیموں نے جگہ بنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد بھی پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوا، امریکی حملہ کے بعد مہاجرین کا دبائو ایک بار پھر پاکستان پر آیا، پاکستان کیلئے مزید مسائل پیدا ہوئے جبکہ اس دوران جب پاکستان کو مغربی سرحد پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تھی مشرقی سرحد پر بھارت نے بھی اپنی نقل و حرکت بڑھا دی جس کی وجہ سے پاکستان کو بیک وقت مغربی اور مشرقی سرحدوں پر مصروف کر دیا گیا، اس صورتحال میں بھارت کے کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس نے مصنوعی بحران کیوں پیدا کیا۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ امریکہ اور یورپ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 50 لاکھ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے ساتھ عسکریت پسندوں اور جنگجوئوں نے بھی اپنا راستہ بنایا اور پاکستان ایک ایسی جنگ کا حصہ بن گیا جس سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا، اس جنگ میں پاکستان نے 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی اور اس کی معیشت کو 152 ارب ڈالر کے نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں، دنیا میں کسی دوسرے ملک نے اتنی بھاری قیمت ادا نہیں کی، ملک بھر میں ہزاروں فوجی آپریشنز کئے گئے۔

معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کو 20 سال سے سرحد پار سے دہشت گردی کا مسئلہ درپیش ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے افغان سرحد پر باڑ لگانے کی بات کی لیکن امریکہ نے دلچسپی نہیں لی اور افغانستان کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی، ہم باضابطہ ویزا نظام کی بات کرتے رہے لیکن اس وقت کی افغان حکومت کی جانب سے مخالفت کی جاتی رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسائل کے حل میں کون سنجیدہ ہے اور کون نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کیلئے آسان آپشن ہے کہ 90ء کی دہائی کی غلطیاں دہرائی گئیں تو ان پالیسیوں کے نتائج بھی ویسے ہی برآمد ہوں گے، ہمیں چاہئے کہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کریں اور بہتر مستقبل کی جانب بڑھیں۔

معید یوسف نے کہا کہ ہم دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ ایک عام افغان کیلئے افغانستان کے ساتھ رابطہ رکھیں، افغانستان میں ایک مخلوط حکومت، افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر انسانی حقوق کا احترام، بحران سے بچنے کیلئے گورننس اور معاشی سپورٹ اور عالمی سطح پر معاشی منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ موقع ضائع نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ طالبان کی طرف سے صحیح وقت پر صحیح بیان سامنے آیا ہے، وہ قانونی جواز چاہتے ہیں، اس لئے ہمارے خیال میں یہ موقع ہے کہ ان کے ساتھ رابطے قائم کئے جائیں، امید ہے ان رابطوں سے ضرور کوئی امکان پیدا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری میں ہر ایک یہ کہہ رہا ہے کہ پناہ گزینوں کی آمد کیلئے تیار رہنا چاہئے لیکن کیا دنیا افغانستان کی مقروض نہیں کہ اس ملک میں انسانی بحران اور پناہ گزینوں کی آمد کو روکا جا سکے، ہم افغانیوں کے ساتھ مل کر اس بحران کو روکنے کیلئے کام کیوں نہیں کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ صورتحال قابو سے باہر نہ ہو۔

انہوں نے افغانستان سے انخلاء کے حوالہ سے کہا کہ اگر دنیا نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تو اس کا نتیجہ وہاں سکیورٹی خلاء کی صورت میں سامنے آئے گا اور بین الاقوامی دہشت گردوں کو وہاں پنپنے کا موقع ملے گا، اگر گورننس کا بحران پیدا ہوتا ہے تو معیشت بھی بحران کا شکار ہو گی، اس صورتحال میں ممکن ہے کہ نئی جنگ چھڑ جائے اور غیر قانونی معیشت وجود میں آئے جس کے نتیجہ میں یقیناً انسانی بحران پیدا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ روابط قائم کرکے ایک مخلوط نظام کے قیام کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے، اسی طرح ایک میانہ رو حکومت کے قیام اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور ایک نئے انسانی بحران سے بچا جا سکتا ہے۔
 

Advertisement