اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) اسحاق ڈار کے نائب وزیر اعظم بنتے ہی ملک میں کئی طرح کی قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں، مسلم لیگ (ن) کے مخالفین جو حکومتی جماعت اور مقتدرہ کے درمیان کشیدگی کے خواب دیکھ رہے ہیں اس پیشرفت کی تعبیر یوں کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف دباؤ بڑھا کر بالآخر اپنے سمدھی کو نائب وزیر اعظم بنوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ان کی تشریح کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے ایک مخصوص گروپ کی جانب سے گزشتہ کئی ہفتوں سے مقتدرہ پر کی جانے والی تنقید پریشر بنانے کیلئے تھی، جس میں وہ کامیاب رہے، اسحاق ڈار کے نائب وزیر اعظم بننے سے قبل نہ صرف مسلم لیگ (ن) بلکہ اس کے حریفوں کی جانب سے بھی یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ انہیں پہلے اقتصادی رابطہ کمیٹی میں شامل کرنا اور پھر کسی وجہ سے نکالنا اور پھر مشترکہ مفادات کونسل کا حصہ بنانا ظاہر کرتا ہے کہ میاں نواز شریف کا گروپ پالیسی سازی میں اپنا حصہ رکھنا چاہتا ہے، جو اسے نہیں مل رہا اور وہ دو اہم وزارتوں یعنی وزارت خزانہ اور وزارت داخلہ مسلم لیگ (ن) سے باہر جانے پر رنجیدہ ہیں۔
یہ تاثر بھی تقویت پکڑنے لگا کہ نواز شریف شاید اس حکومت سے خوش نہیں اور شہباز شریف کی حکومت اور اس کے فیصلے نواز شریف کی مرضی کے خلاف ہو رہے ہیں۔
ان تمام پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے سب سے پہلے بات کرتے ہیں کہ کیا واقعی یہ حکومتی سیٹ اَپ میاں نواز شریف کی مرضی کے خلاف بنا؟ میاں نواز شریف آٹھ فروری کے انتخابات میں گراؤنڈ کی اصل صورتحال سے اچھی طرح آگاہ تھے، الیکشن کے بعد انہوں نے اپنی مرضی سے شہباز شریف کو وزیر اعظم نامزد کیا، اگر نواز شریف نہ چاہتے تو شہباز شریف کسی صورت وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔
(ن) لیگ خصوصاً شریف خاندان کیلئے اصل خوشی تو مریم نواز کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا تھا، میاں نواز شریف نے اقتدار اور اپنی خاندانی سیاست کو عملی طور پر اپنی اگلی نسل کو منتقل کرنا تھا، ایسے میں یہ کہنا قطعاً درست نہیں کہ آٹھ فروری کے بعد بننے والی حکومت میاں نواز شریف کی حکومت نہیں، مسلم لیگ(ن) کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ بیانیہ درست نہیں ہے کہ نواز شریف کے ساتھ کسی قسم کا ہاتھ ہوگیا ہے۔
میاں نواز شریف اور ان کے بچے ملک واپس آئے، ان کے مقدمات ختم ہوئے، پراسیکیوشن نے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا، تحریک انصاف کے مقابلے میں مقبولیت کم ہونے کے باوجود اہم ترین صوبے پنجاب اور وفاق میں ان کی جماعت کی حکومتیں قائم ہوئیں، اس صورتحال کی سب سے بڑی بینیفشری جماعت مسلم لیگ (ن) ہی ہے، اس کے باوجود میاں جاوید لطیف اور رانا ثنا اللہ کی جانب سے دیئے گئے بیانات اور ان پر مسلم لیگ (ن) کی بحیثیت جماعت خاموشی نے ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوشش کی۔
(ن) لیگ کے پاس حکومت ہے، ہر طرح کی سپورٹ ہے، اگر نہیں ہے تو بیانیہ نہیں ہے، یہ بیانیہ کارکردگی کا ہونا چاہیے مگر ملک میں بیانیہ سازی کا سب سے آسان طریقہ نام نہاد مزاحمتی سیاست بن چکا ہے، یہ مسئلہ صرف (ن) لیگ کا نہیں ہر جماعت کا ہے کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہ تو ٹیم ہے نہ ہی کارکردگی، ایسے میں بیانیہ بنانے کا سب سے آسان اور سستا طریقہ مزاحمتی اور خود کو انقلابی ظاہر کرنا ہے۔
یہی صورتحال پاکستان تحریک انصاف کی ہے جس کی سیاست مکمل طور پر مزاحمت پر مبنی ہے اور جن کے خلاف وہ مزاحمت کر رہے ہیں انہیں سے مدد بھی مانگ رہے ہیں اور دوستی بھی کرنا چاہتے ہیں، تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی نے اعتراف کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی تو مقتدرہ کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں، مگر مقتدرہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
مولانا فضل الرحمان کی مزاحمتی تحریک بھی مقتدرہ کی جانب سے لفٹ نہ کرائے جانے پر ابھری، البتہ ایک معاملے پر مسلم لیگ (ن) کو تحفظات ضرور ہیں کہ خزانہ اور داخلہ جیسی اہم وزارتوں کے قلمدان (ن) لیگ بلکہ سیاسی حلقوں سے باہر چلے گئے، یہ دو وزارتیں ایسی ہیں جن کے قلمدان کوئی بھی حکمران جماعت اپنے سینئر اور با اعتماد لوگوں کو دیتی ہے، محسن نقوی کا وزیر داخلہ بننا ہی نہیں بلکہ اسلام آباد میں اپنی مرضی کے تقرر و تبادلے کرانا بھی (ن) لیگ کو گراں گزر رہا ہے، مگر انتہائی کم سرمایہ کاری کے باوجود اتنے بڑے منافع کے بعد حکمران جماعت کی اتنی قربانی تو بنتی ہے۔
اسحاق ڈار کے نائب وزیر اعظم بننے کی بات کریں اور اس کے اثرات کو دیکھیں تو یہ امر بھی بہت دلچسپ ہے، اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم بنوا کر میاں نواز شریف گروپ نے دراصل حکومت کی مکمل طور پر اونرشپ لے لی ہے، اب کم از کم ایک مخصوص گروپ یہ تاثر تو نہیں دے سکے گا کہ یہ حکومت میاں نواز شریف کی نہیں شہباز شریف کی ہے۔
کابینہ سے باہر رہ کر ٹی وی انٹرویوز میں دھماکے دار بیانات دینے والے رانا ثنا اللہ کو بھی وزیراعظم کا مشیر بنا کر وفاقی وزیر کا درجہ دے دیا گیا ہے، اس کے بعد اب (ن) لیگ سے اٹھنے والی مزاحمتی آوازیں آنے والے دنوں میں کم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے آئین اور قانون کی رُو سے ڈپٹی وزیر اعظم کے پاس نہ تو کوئی اختیارات ہیں نہ وہ کسی کی غیر موجودگی میں کسی کا متبادل ہو سکتا ہے، یہ عہدہ کسی کا سیاسی وزن بڑھانے اور اعتماد بڑھانے کیلئے تو ہو سکتا ہے مگر اس کی انتظامی طاقت کچھ بھی نہیں، مقتدرہ کو اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیر اعظم تقرری پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ اطمینان ہے کہ اب تمام سٹیک ہولڈرز قومی فیصلوں کی اونرشپ لیں گے، اسحاق ڈار کے ڈپٹی وزیر اعظم بننے سے البتہ یہ تاثر زائل ہو گیا ہے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی پالیسیوں میں اختلافات ہیں۔
(ن) لیگ کو حکومت ایسی صورت میں ملی ہے جس میں اس کے پاس ماضی جیسے بلنڈرز کرنے کا مارجن بہت کم ہے، مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ اس وقت اپنے لئے مشکلات پیدا کیں جب اس کے پاس دو تہائی یا بھاری سادہ اکثریت والی حکومتیں رہیں، اس مرتبہ کا ماڈل حکومتی سیٹ اَپ کو طویل عرصہ چلانے میں معاون ہوگا مگر (ن) لیگ کے سیاسی مخالفین اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب حکومتی جماعتوں کی مقتدرہ کے ساتھ لڑائی ہو اور ان کا چانس بنے۔