لاہور: (مولانا محمد اکرم اعوان) علمائے حق نے گنا ہوں کی اقسام بیان فرمائی ہیں، فقہا نے لکھا ہے فلاں فلاں گناہِ کبیرہ ہے، فلاں فلاں گناہِ صغیرہ ہے، اپنے حجم کے اعتبار سے کوئی صغیرہ ہو سکتا ہے کوئی نافرمانی کم بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک رخ اس بات کا اور بھی ہے۔
اگر یہ دیکھا جائے کہ نافرمانی کس کی ہے، نافرمانی تو نافرمانی ہے، گناہ تو گناہ ہے، جرم تو جرم ہے، اگر آپ کسی کشتی میں دس بیس من کا پتھر ڈال دیتے ہیں وہ اسے لے کے ڈوب جاتا ہے تو فرق یہ ہوگا کہ وہ جو آپ نے بہت بڑا پتھر ڈالا وہ اسے فوراً لے ڈوبا، لیکن اگر آپ اس میں ایک ایک کنکر رکھتے جاتے ہیں تو ایک دن ان کی مقدار بھی اتنی ہی بن جائے گی کہ وہ کشتی کو ڈبو دے گی۔
بظاہر اس کنکر کی کوئی حیثیت نہیں ہے، آپ چھوٹے چھوٹے کنکر اس میں رکھتے رہتے ہیں پانچ سات روز رکھ دیتے ہیں تھوڑا سا وقت لگ جائے گا لیکن نتیجہ ایک ہی ہوگا، صغیرہ اور کبیرہ میں فرق یہ ہے کہ گناہِ کبیرہ فوراً کشتی ڈبونے کا سبب بنتا ہے جبکہ گناہِ صغیرہ کا تسلسل بھی غرق کرنے میں پیچھے نہیں رہتا۔
قرآنِ حکیم نے کفر کی وجہ نافرمانی کو اور عدم اطاعت کو قرار دیا ہے، ہوتا یہ ہے کہ بندہ جب غلطی کرتا ہے گناہ کرتا ہے لیکن اسے احساس ہو جائے اور وہ توبہ کر لے تو اللہ غفورالرحیم ہے لیکن توبہ نہ کرے اور مسلسل گناہ کرتا جائے تو ہر گناہ ایک ظلمت پیدا کرتا جاتا ہے، دل پر سیاہی بڑھتی جاتی ہے اور یہ عمل مسلسل رہے تو نتیجہ کفر تک جا پہنچتا ہے۔
حضرت مولانا اللہ یار خانؒ فرمایا کرتے تھے کہ گناہ کرنے سے اوراد و وظائف اذکار و معمولات میں کمی آجاتی ہے، بندہ توبہ نہ کرے تو نوافل چھوٹنے لگتے ہیں، اس پر بھی توبہ نہ کرے تو سنتوں سے محروم ہونے لگتا ہے، اس پر بھی توبہ نہ کرے، اسے احساس نہ ہو تو فرائض سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ فرائض چھوٹ جاتے ہیں، اس پر بھی اسے احساس نہ ہو تو زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی نافرمانیاں داخل ہونے لگتی ہیں، رزق سے حلال حرام کی پرواہ اُٹھ جاتی ہے، کام کرنے میں جائز و ناجائز کی تمیز اٹھ جاتی ہے غرض یہ کہ ہر گناہ ایک وزن ہے جو اس کی ٹانگ سے بندھ جاتا ہے اور اسے غرق کرتا چلا جاتا ہے۔
اگر کسی لمحے بھی اللہ توفیق دے دے اور احساس پیدا ہو جائے خلوصِ دل سے توبہ کر لے تو ایک توبہ ساری مصیبتوں کا واحد حل ہے، ارشاد عالیٰ ہے: گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو، لیکن یاد رکھیں یہ احساس بھی اس کی عطا ہے، کوئی عمل اسے منظور ہو جائے کوئی چھوٹی سی نیکی اسے پسند آجائے کوئی جملہ ایسا منہ سے نکل جائے جو اس کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت پا لے تو وہ توبہ کی توفیق ارزاں کر دیتا ہے۔
ہر آدمی کو اپنے آپ کو تلاش کرتے رہنا چاہئے کہ میں کہاں ہوں؟ کیا میں حصول رزق میں حلال و حرام کا فرق دیکھ رہا ہوں؟ کیا اللہ کی عبادات کی توفیق ہے اور سجدہ ریز ہو رہا ہوں؟ کیا بات کرنے میں حدود شرعی سچ اور جھوٹ کا لحاظ رکھتا ہوں؟ اپنے آپ کو تلاش کرتے رہنا چاہیے، ایک قول ہے: جس نے اپنے آپ کو تلاش کیا اس نے اپنے پروردگار کوتلاش کر لیا، جو بندہ اپنے آپ کو تلاش کر لے کہ میں کہاں ہوں اور میں کیا کر رہا ہوں اور روزانہ اپنا محاسبہ کرتا رہے، اپنے آپ کو اصلاح پہ لے آئے تو اللہ کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے۔
قرآن حکیم جو نازل ہوا اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس کیلئے بڑا دانشور ہونا ضروری ہے، اس لئے کہ یہ تو عام آدمی کیلئے ہے، ہر ایک کیلئے ہے، اس کی باتیں بڑی کھلی کھلی ہیں، ہر آدمی کیلئے ہیں، پڑھے ہوؤں کیلئے ہیں، ان پڑھوں کیلئے بھی یہی ہیں، دکانداروں کیلئے بھی یہی ہیں اور خریداروں کیلئے بھی یہی ہیں، حکمرانوں کیلئے بھی یہی ہیں اور رعیت کیلئے بھی یہی ہیں اور اس میں سب کیلئے بڑی واضح اور کھلی باتیں ہیں ایسی نہیں جو کسی کی سمجھ میں نہ آئیں، پھر اس کا انکار کیوں کرتے ہیں؟
گناہوں کے سبب دلوں کی سیاہی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ نورِایمان نصیب نہیں ہوتا اور پھر کردار یہ ہو جاتا ہے جب بھی کوئی معاہدہ کرتے ہیں اللہ سے وعدہ کر تے ہیں اللہ کے نبی سے وعدہ کرتے ہیں تو اسے توڑ دیتے ہیں، کلمے کی تکرارﷺ کیا یہ وعدہ نہیں ہے! ہم جب بھی کلمہ پڑھتے ہیں تو کیا یہ ایک تجدید عہد نہیں ہے! ہم جب بھی اذان کہتے ہیں اذان سنتے ہیں تو کیا یہ تجدید عہد نہیں ہے!
موذن شروع ہی یہاں سے کرتا ہے اللہ اکبر اور ختم کرتا ہے لا الہ الا اللہ پر۔ بڑائی صرف اللہ کیلئے ہے اس کے سو اکوئی معبود نہیں درمیان میں ہے کہ آجاؤ اللہ کی اطاعت کی طرف، اس کی بڑائی پہ گواہی دیتا ہے، اس کی وحدانیت پہ گواہی دیتا ہے، محمد رسول اللہﷺ کی رسالت پہ گواہی دیتا ہے، ہم سن کر آمین کہتے ہیں، دعا پڑھتے ہیں یا کلمہ پڑھتے ہیں۔ کیا یہ عہد نہیں ہے!، یہ سارا کچھ کرنے کے بعد ہم عمل کتنا کرتے ہیں؟
یہی بات یہاں دہرائی جا رہی ہے جب بھی کوئی وعدہ کرتے ہیں ان میں سے آدھے اسی وقت وعدہ توڑ دیتے ہیں یہ صرف وعدہ نہیں توڑتے بلکہ ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جن کا ایمان ہی نہیں۔ دنیا داری کے لئے دنیا کو نبھانے کے لئے وعدہ کر لیتے ہیں اور جب دنیا کی بات ختم ہو جاتی ہے تو دل میں نورِ ایمان تو ہوتا نہیں دنیاوی فائدے کیلئے سب کچھ کرتے ہیں، اللہ کریم ہمیں صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچنے کی توفیق دے۔
مولانا محمد اکرم اعوان مفسر قرآن، مذہبی پیشوا اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔