اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق آج ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، صحافی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ رانا شمیم غیر حاضر رہے۔
دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ نے وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل، صدر پی ایف یوجے اور ایک صحافی کو معاون مقرر کر دیا۔
سماعت کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے تحریری حکمنامہ جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق بیانِ حلفی ایک اخبار کو جاری کرنے کی ٹائمنگ کی بھی وضاحت موجود نہیں ہے، بیانِ حلفی میں لگائے گئے الزامات سنگین نوعیت کے مس کنڈکٹ ہیں، رانا شمیم کی ڈیوٹی تھی ایسا کچھ سنا تھا تو فوری طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ کرتے، ججوں پر تنقید اور ان کا احتساب ہو سکتاہے لیکن انصاف فراہمی میں رکاوٹ نہیں ڈالی جا سکتی۔
تحریری حکمنامے کے مطابق صحافی اس سے ناواقف نکلے کہ اُس وقت بنچ میں جسٹس عامر فاروق شامل نہیں تھے، صحافی نے بتایا انہوں نے صرف ایک پیغام رساں کا کام کیا ہے، تسلیم شدہ حقیقت ہے تصدیق کیلئے رجسٹرار ہائیکورٹ سے رابطہ نہیں کیا گیا، نواز شریف اور مریم نواز کے وکلا سے بھی پوچھا نہیں گیا کیا انہوں نے الیکشن سے پہلے سماعت کی درخواست دی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے خبر شائع کرنے والے تمام فریقین کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے 7 روز میں تحریری جواب مانگ لیا جبکہ 26 نومبر تک کس پر سماعت ملتوی کر دی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر تمام فریقین کو پھر طلب کرلیا۔
سابق چیف جج گلگت بلتستان کے انکشافات پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ پورے جوڈیشل سسٹم اور بالخصوص ہائیکورٹ پر الزام ہے، یہ کوئی عام معاملہ نہیں، اس کے بہت سنجیدہ نتائج ہوں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی رپورٹ نے ہائیکورٹ پر سوالات اٹھا دیئے ہیں، عدالت کے ہر ایک جج کے اوپر مجھے بھروسہ اور اعتماد ہے، ججز بھی قابل احتساب ہیں اور ان پر تنقید بھی ہونی چاہیے، عوام کا اعتماد عدالت سے اٹھ گیا تو بے یقینی پیدا ہو جائے گی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے میر شکیل کو اسٹوری ہیڈلائن پڑھنے کی ہدایت کی جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا کہ میری عینک نہیں ہے۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ججز پر تنقید ضرور کریں مگر لوگوں کا اعتماد نہ اٹھائیں، ہم اپنے آپ کو ڈیفنڈ نہیں کرسکتے، میرے خلاف کئی بار سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی، آپ کو کوئی بیان حلفی دے تو اسے فرنٹ پیج پر چھاپ دیں گے ؟ انہوں نے بیان حلفی کو باہر کیوں نوٹرائز کیا ؟، یہ بیان حلفی اس عدالت کے کسی ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں۔
چیف جسٹس نے سینئر صحافی سے استفسار کیا آپ انویسٹی گیشن کے ماہر صحافی ہیں، خود تحقیقات کیں ؟ آپ نے چیک کیا عدالتی بنچ کب بنا ؟ آپ رجسٹرار کو فون کر کے چیک کر سکتے تھے، جب اپیل دائر ہوئی میں اور جسٹس عامر فاروق ملک میں نہیں تھے، میرے سامنے کوئی چیف جسٹس ایسی بات کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل جاؤں گا، سابق چیف جج کے سامنے بات ہوئی اور وہ 3 سال تک خاموش رہے۔
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم عدالت سے غیر حاضر رہنے پر ان کے بیٹے نے کہا کہ والد صاحب رات اسلام آباد پہنچے، طبیعت ٹھیک نہیں۔ رانا شمیم کے بیٹے نے عدالتی عملے سے کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت مانگ لی۔