لاہور: (فرحان نذیر) انڈیا کی رسوائے زمانہ تہاڑ جیل مسلمانوں کی بڑی ’’رہائش گاہ ‘‘ سمجھی جاتی ہے، انگریزوں اور ہندوئوں ،دونوں نے ہی اس جیل کو تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے استعمال کیا، انصاف کا خون اسی چار دیواری میں بہہ رہا ہے، مقبوضہ کشمیریوں کی تیسری نسل انہی دیواروں کے پیچھے جوان ہو رہی ہے، دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی سویلین کو جیل میں دفنایا گیا ہو مگر کشمیری رہنما مقبول بٹ(1984ء ) اور افضل گرو (2013ء) پھانسی پانے کے بعد اس جیل میں ہی دفن ہوئے۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ فروری کے مہینے میں ہم سب اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے یومِ یکجہتی کشمیر بھی مناتے ہیں اور اِسی مہینے میں 39 برس قبل مقبوضہ کشمیر کے مقبول و معروف حریت پسند نوجوان رہنما مقبول بٹ اور 10 برس قبل افضل گرو دہلی کی بدنامِ زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید کئے گئے، کشمیریوں کو اپنے پنجہ استبداد میں جکڑنے والوں نے 1984ء میں ایک ایسے گل سرسبد کو دار کی خشک ٹہنی پر وار کر شہادت کے سرخ سرمدی رنگ میں نہلا دیا، جس سے بسنت کا پیلا رنگ بھی مانند پڑ گیا اور سرسوں کے سبز اور پیلے پودوں نے بھی دار پہ کھنچے اس سربکف و سربلند گلاب کو بدلتے موسم کی سلامی دی مگر اس شہید کو جسے کشمیری شہید کشمیر مقبول بٹ کے نام سے پکارتے ہیں کی شہادت نے ظلم و ستم اور بے رحم موسم کے رخ سے نقاب الٹ دیا اور صرف 5 سال بعد 1989ء میں شہادتوں کے سرخ گلابوں کی ایسی فصل اُگی کہ آج پوری وادی کشمیر کے گلی کوچے آزادی کے نعروں سے گونج رہے ہیں۔
غاصب قوتیں پریشان ہیں جن کا خیال تھا کہ مقبول کی موت سے آزادی کا نعرہ دم توڑ دے گا، آج کشمیر کے چپے چپے پہ خزاں نہیں بہار کا رنگ غالب آچکا ہے، سرد ترین موسم میں بھی وہاں شہیدوں کا لہو گلاب بن کر مہک رہا ہے، زندان بنے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بچے، بوڑھے اور جوان، مرد و زن سب بھارتی افواج کے خلاف سینہ سپر ہو کر آزادی کی جنگ مقبول بٹ کے سنگ لڑنے کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں، ہر جوان مقبول بٹ کی شکل میں بھارتی سامراج کے سامنے کھڑا ہے، 10 لاکھ سے زیادہ بھارتی مسلح افواج نے وادی کشمیر کو مقتل اور زنداںبنا دیا ہے مگر وہ تمام تر ظلم و استبداد کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کر پائے اور کشمیری اپنے مقدس مادر وطن کے چپے چپے کی حرمت اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں یہ آزادی کی جنگ ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کے لہو کا خراج لے چکی ہے۔
تحریک حریت کشمیر کو کشمیری قوم نے اپنے ایمان سے سینچا ہے اور شہداء کے خون سے اس کی آبیاری کی ہے، یہ تحریک دراصل 14 اگست 1947 کا ایک نامکمل باب ہے اور بادی النظر میں تحریک تکمیل پاکستان ہے، ’’لاالہ الااﷲ محمد رسول اللہ ‘‘ کے کلمے نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو بالعموم اور کشمیر کے مسلمانوں کو بالخصوص پاکستانیوں کے ساتھ مکمل طور پر جوڑ رکھا ہے اور یہ تعلق کبھی بھی ٹوٹنے والا نہیں ہے، حقیقت یہی ہے کہ ایمان کے اس تعلق کی وجہ سے پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ اور کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
شہید مقبول بٹ 18 فروری 1938 کو ضلع کپواڑہ کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام غلام قادر بٹ تھا، گیارہ سال کی عمر میں والدہ کی شفقت سے محروم ہوگئے، والد نے دوسری شادی کر لی اور یوں آغاز عمری سے ہی محرومیوں کی بھٹی میں یہ نوجوان کندن بننے لگا، شہید مقبول بٹ نے اپنی زندگی کی جملہ تفصیلات اس خط میں تفصیل سے ذکر کی ہیں جو انہوں نے 12 اپریل 1972 کوجیل سے لکھا، اس خط کے مندرجات سے اندزاہ ہوتا ہے کہ قدرت نے آغاز سے ہی اس شہید کی پرورش میں خصوصی توجہ مرکوز کررکھی تھی۔
چنانچہ وہ ایک واقعہ بڑی تفصیل سے تحریر کرتے ہیں کہ ایک بار جب بوجوہ فصل بہت اچھی نہ ہوئی تو جاگیردارکے ہرکارے جنہیں ’’کاردار‘‘ کہا جاتا تھا کسانوں سے کسی رعایت کے روادار نہیں تھے اور بضد تھے خواہ اپنے بچوں کی ہی قیمت پر مقررہ مقدار کا خراج بہر صورت ادا کیا جائے، اس مقصدکے لیے انہوں نے بعض کاشتکاروں کے گھروں پر دھاوا بھی بولا، معاملہ جب جاگیردارتک پہنچا تو شہید مقبول بٹ لکھتے ہیں کہ وہ اپنی کار پر گاؤں آیا اور شہید مقبول بٹ سمیت گاؤں کی اکثریت نے چار پہیوں والی گاڑی پہلی دفعہ دیکھی، اسکے سامنے گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے بتایا متعدد وجوہات کے باعث چونکہ اس بار فصل کوئی بہت اچھی نہیں ہوئی اس لیے مقدار مقررہ کے مطابق خراج کی ادائیگی ممکن نہیں ہے لیکن اس جاگیردار نے بھی ان حالات کو درخوراعتنا نہیں سمجھا اور خراج کی وصولی پر مصر رہا اور جب اپنی کار میں بیٹھ کر واپس جانے لگا تو گاؤں کے سب بچے اس کی گاڑی کے سامنے لیٹ گئے، جاگیردارحیران رہ گیا کہ اب ادھورا خراج وصول کرے یا ان بھوکے ننگے بچوں کی معصوم جانوں کو کچلتا ہوا آگے کو نکل جائے۔
شہید مقبول بٹ لکھتے ہیں کہ کار کے سامنے لیٹنے والے کسانوں کے ان بھوکے، ننگے اور چیختے چلاتے بچوں میں میں بھی شامل تھا۔
1949 میں شیخ عبد اللہ کے برسر اقتدار آنے کے بعد معاشرے کی اقدار میں نمایاں تبدیلی آنے لگی اور سکول میں سالانہ یوم والدین کے موقع پر امیر بچے اور ان کے والدین کو ایک طرف جبکہ غریب طلبہ اور انکے والدین کو دوسری طرف بٹھایا جانے لگا، شہید مقبول بٹ لکھتے ہیں کہ ایک تقریب کے موقع پر جب وہ خود بھی اعلیٰ انعام لینے کے حق دار ٹھہرائے گئے تو عین اس موقع پر انہوں نے انعام کی وصولی سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ جب تک سب طلبہ کے درمیان مساوات قائم نہیں کی جائے گی، وہ اپنا انعام وصول نہیں کریں گے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرتی تفریق کے خلاف شہید مقبول بٹ کے دل میں نہ صرف یہ کہ کتنی زیادہ نفرت تھی بلکہ یہ نفرت انہیں بڑے سے بڑے اقدام پر بھی آمادہ کر سکتی تھی جس کے باعث وہ بالآخر شہادت کا اعلیٰ تر مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، ابتدائی تعلیم کے بعد شہید مقبول بٹ نے بارہ مولامیں سینٹ جوزف کالج میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے سیاسیات اور تاریخ کے مضامین میں بی اے کی ڈگری حاصل کی، اسی کالج کے دوران ہی وہ پہلی بار پاکستان بھی آئے، بعد میں انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کا امتحان بھی پاس کیا اور اس دوران اپنے روز و شب کے لیے ایک ہفت روزہ کے ساتھ بھی صحافتی طور پر وابستہ رہے،عملی سیاست کے آغاز تک وہ اسی جریدے سے متعلق رہے۔
1961 میں راجہ بیگم،ایک کشمیری خاتون،سے ان کی شادی کر دی گئی، جاوید مقبول اور شوکت مقبول اس خاتون کے بطن سے جنم لینے والے ان کے دو بیٹے ہیں جبکہ کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے ’’ذکری بیگم‘‘ نامی ایک معلمہ سے بھی شادی کی جس سے ان کی ایک بیٹی نے جنم لیا، 14 ستمبر 1966ء کو شہید مقبول بٹ کا یہ فطری جذبہ انہیں برہمن استعمار کے خلاف عملی جدوجہد پر لے آیا اور انہوں نے وقت کے طاغوت کے خلاف ہتھیار اٹھا کر اپنی قوم کے عملی تحفظ کی طرف ایک اور قدم بڑھا دیا۔
ہندوکی ذہنیت کی سفاکی و عیاری دیکھیے کہ اس مرد مجاہد کے خلاف لوکل سی آئی ڈی کے بدنام زمانہ ظالم و فاسق و فاجر انسپکٹر امرچند، جس نے کشمیریوں کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا، اس کے قتل کے الزام میں دھرلیا اور پھانسی کی سزا سنا دی گئی، دریا جب پوری قوت سے بڑھے تو بڑی سے بڑی چٹانیں بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتیں، چنانچہ سری نگر جیل کی بلند و بالا آہنی فصیلیں اس مرد آزادی کے سامنے ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں اور بہت جلد یہ نوجوان سری نگر جیل سے نکل کر آزاد فضاؤں سے ہوتا ہوا سرزمین پاکستان پہنچ گیا۔
1971ء میں بھارتی حکمرانوں نے ایک طیارے کے اغوا میں شہید مقبول بٹ کو بھی ملوث کر دیا اور پھر جب یہ نوجوان اپنے وطن پہنچا تو ایک بار پھر 1974ء میں اسے گرفتار کر لیا گیا، پھانسی کی گزشتہ سزا کی تلوار ابھی بھی لٹک رہی تھی کہ اسی دوران 6 فروری 1984 کو برمنگھم، برطانیہ میں ایک بھارتی سفارتکار کا قتل ہوگیا، بھارتی انتظامیہ نے جیل میں پڑے ہوئے اس نوجوان کو حسب سابق اس کا ماسٹر مائنڈ قراردے دیا او رتہاڑجیل نئی دہلی میں 11 فروری 1984ء کو اس مرد مجاہد کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔
ایک شہید مقبول بٹ لٹک گیا تو کیا ہوا کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحرپیدا، شہید کی ایک ایک بوند سے شہیدوں کی نسلیں جوان ہوئی ہیں اور آج استعمار کے خلاف تیسری نسل کا تسلسل ہے جو شہید مقبول بٹ کی تاریخ دہرا رہا ہے۔