8 مارچ :خواتین کا عالمی دن

Published On 08 March,2023 09:55 am

لاہور: (مہناز رفیع) خواتین کا عالمی دن ایک مزدور تحریک کے طور پر شروع ہوا تھا اور اب یہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ ایک سالانہ دن ہے۔ یہ 8 مارچ 1907ء کی بات ہے جب نیویارک کی ملبوسات بنانے والی صنعت سے منسلک خواتین نے پہلی بار 10 گھنٹے کام کرنے کے خلاف اور مزدوری کی اجرت میں اضافہ کیلئے آواز اٹھائی۔ احتجاج کیلئے سڑکوں پر آئیں تو پولیس نے ان پر سخت تشدد کیا۔

اس واقعہ کے ایک سال بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا قومی یومِ نسواں منایا۔ ایک سال بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے خواتین کے پہلے قومی دن کا اعلان کیا تاہم اسے بین الاقوامی بنانے کا خیال سب سے پہلے کلارا زیٹکن نامی خاتون کے ذہن میں آیا جو کہ ایک کمیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں۔ انہوں نے 1910ء میں کوپن ہیگن میں ’’انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن‘‘ میں یہ خیال پیش کیا۔ وہاں 17 ممالک سے 100 خواتین موجود تھیں جنہوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی۔ یہ پہلی مرتبہ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 1911ء میں منایا گیا۔ اس کی صد سالہ تقریب 2011ء میں منائی گئی لہٰذا، تکنیکی طور پر اس سال ہم خواتین کا 112 واں عالمی دن منانے جا رہے ہیں۔

پہلے یہ دن صرف سوشلسٹ ممالک میں منایا جاتا تھا مگر برطانیہ کے صنعتی انقلاب کے بعد یہ دن عورتوں کے اقوام متحدہ پر زور ڈالنے پر دنیا بھر کی خواتین کی جدوجہد کی علامت کے طور پر منایا جانے لگا۔ اب ساری دنیا کی عورتیں 8 مارچ کو عورتوں کی یکجہتی، برابری اور حقوق کے حصول کی جدوجہد کے دن کے طور پر مناتی ہیں کیونکہ اب یہ جدوجہد پوری انسانیت کے ساتھ جوڑی جا چکی ہے۔ عورتوں کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے۔

پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو، جن میں مردوں کے ساتھ پاکستانی خواتین بھی شامل ہیں‘ برابری کا حق دیتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا آدھا حصہ خواتین ہیں۔ جب تک خواتین کو برابر کا حق نہیں ملتا، خاص طور پر تعلیم، صحت، معاشی اور معاشرتی زندگی میں انہیں مردوں کے برابر کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا، اس وقت تک قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وژن کے مطابق ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ’’دنیا کا کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ قوم کے مردوں کے ساتھ خواتین بھی ملکی ترقی میں شانہ بشانہ حصہ نہ لیں‘‘۔

ہمارے ملک میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے ناصرف ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روش کیا۔ کیوں نہ ان خواتین کا ذکر کیا جائے کیا، جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پاکستانی عوام کے دلوں پر راج کرنے والی خاتون محترمہ فاطمہ جناحؒ کے نام گرامی کے بغیر ہماری تاریخ نا مکمل ہے، آپ قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ اور تحریک پاکستان کی سرگرم رہنما تھیں، اس ملک کیلئے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

رعنا لیاقت علی خان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے محنت کش خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد کی اور ان کیلئے ’’اپوا ‘‘ تنظیم قائم کی۔ اسے اس قدر جامع خطوط پر استوار کیا کہ بد انتظامی کے دور میں بھی یہ ایک منظم تنظیم کے طور پر کام کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ بنگال کی شائستہ سہروردی اکرام اللہ کا نام گرامی بھی بھولنے والا نہیں ہے، آپ پاکستان کی لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن (10 اگست 1947ء تا 24 اکتوبر 1954ء) منتخب ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔

محترمہ فاطمہ جناح اور شائستہ اکرام اللہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے سیاست میں قدم رکھا اور دو مرتبہ وزیر اعظم کے منصب تک پہنچیں۔ فہمیدہ مرزا پاکستان کی پہلی خاتون سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ حنا ربانی کھر نے وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا اور 2011ء سے 2013ء تک ملک کی کم عمر ترین اور پہلی خاتون وزیر خارجہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

گلوکارہ عابدہ پروین کسی تعارف کی محتاج نہیں، انہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ نوجوان نسل میں عروج آفتاب گائیکی کے میدان میں دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کر رہی ہیں۔ وہ گریمی ایوراڈز حاصل کرنے والی واحد پاکستانی گلوکارہ ہیں۔

شوبز کی ہی فیلڈ میں پروڈیوسر و ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ اپنی تخلیقات پر دو بار آسکر ایوارڈز اور چھ ایمی ایوارڈز اپنے نام کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔ لاریب عطا جو کہ گلوکار عطا اللہ کی صاحبزادی ہیں، کم عمری میں ہی ہالی وڈ میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے، وہ ہالی وڈ کی کئی سپر ہٹ اور مقبول فلم سیریز کیلئے بطور اینی میٹر خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کا نام بھی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ 2014ء میں وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی کم عمر ترین شخصیت ہیں۔ مرحومہ ارفع کریم (آئی ٹی کی کم عمر ترین ماہر )، عائشہ فاروق (لڑاکا طیارے کی پہلی پائلٹ )، تبسم عدنان (جرگہ کی پہلی خاتون سربراہ)، ثمینہ خیال بیگ (مائونٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون )، شمیم اختر (پاکستان میں پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور)، طاہرہ قاضی (اے پی ایس سکول پشاور میں دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانے والی باہمت پرنسپل )، بلقیس ایدھی کے نام کبھی اپنے ذہن سے محو نہیں ہوسکتے۔ یہ تمام شخصیات ہمارے لئے رول ماڈل ہیں، ہم زندہ قوم ہیں اور یہی ہماری ’’زندگی ‘‘ کی پہچان ہیں۔ غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں اس میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی اور اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہمیں اپنی زراعت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دیہی علاقوں کو بھی شہری علاقوں کی طرز پر تمام سہولتیں دینا ہوں گی۔ دیہی علاقوں کی عورت مردوں کے مقابلے میں زیادہ کام کرتی ہے مگر اس کے کام کو گنا نہیں جاتا۔ خواتین کی شرح خواندگی دیہی علاقوں میں بہت کم ہے۔ وہاں علمی اور پیشہ ورانہ دونوں طرح کی تعلیم کے مواقع کو بہتر بنانا چاہیے جیسا کہ زراعت، حیوانات سے متعلق توسیعی خدمات میں خواتین کو شامل کیا جائے۔

دیہی علاقوں میں لڑکیوں کیلئے سکولوں کا قیام بے حد ضروری ہے۔ دیہی خواتین کی غربت کے خاتمہ کیلئے ایک پروگرام ’’جفاکش‘‘ شروع ہوا تھا۔ اس پروگرام کا ازسر نو آغاز بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہوم بیسڈ خواتین جیسے شہری علاقوں میں گھروں میں بیٹھ کر سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں، اسی طرح ہماری دیہات کی بہنوں کو بھی یہ سہولت دی جائے۔ اس سے غربت کا خاتمہ ہوگا، نا صرف خواتین کی اقتصادی حالت بہتر ہوگی بلکہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ ان کو صحت مند ماحول دینے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے علاقہ میں رہ کر کام کر سکیں۔ خاص طور پر پاکستان کی ایگروبیسڈ انڈسٹریز کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنی انڈسٹری شہروں کے بجائے دیہی علاقوں میں لگائیں جس سے ان کو سستا مزدور ملے گا۔

ہمارے یہی لوگ، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، دیہی علاقوں سے روزگار کے لئے شہروں میں آتے ہیں جس کی وجہ سے حالات بھی خراب ہوتے ہیں۔ ان کو ان کے گھروں کے نزدیک کام ملنے میں آجر اور اجیر دونوں کا فائدہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسانوں میں خواتین بھی شامل ہوں، کسان کمیٹیاں بنائی جائیں جس میں ان کو شامل کر کے نیشنل پالیسی تشکیل دی جائے۔

بے زمین کسان مردوں اور خواتین کو حکومتی زمین دی جائے۔ اس کے ساتھ ان کو چھوٹے قرضے دیئے جائیں تاکہ وہ وہاں درخت بھی لگائیں اور سبزیاں بھی لگائیں۔ اسی طرح ’’ایک ضلع ایک ہنر‘‘ کے حوالے سے علاقوں کے ٹریڈیشنل ورک کو پروموٹ کیا جائے۔ انشاء اللہ! اگر ہم اپنے دیہات سدھار پروگرام کو صحیح طریقہ سے بروئے کار لا سکیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی محنت کش خواتین چاہے وہ مزدور ہوں، کسان ہوں، ٹیچر ہوں، نرس ہوں، ڈاکٹر ہوں، وہ اس ملک کے بارے میں قائداعظمؒ کے خواب کو پورا کریں گی۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی خواتین کو ان کا حق دینا شروع کر دیں۔ دراصل یہ پاکستان کے سماج کو حق دینا ہے۔ جیسے جیسے آپ پاکستان کی عورت کو حقوق دیں گے، ویسے ویسے ہمارے خواب پورے ہوں گے اور پاکستان کی معیشت بہتر ہو گی۔

اب دہر میں بے یارومددگار نہیں ہم
پہلے کی طرح بے کس، لاچار نہیں ہم
آتا ہے ہمیں اپنے مقدر کو بنانا
تقدیر پہ شاکر پسِ دیوار نہیں ہم
(حبیب جالب)

اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کی حفاظت فرمائے۔ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک عجیب بحث چھڑی ہوئی ہے، اس میں چند خواتین ایسی ہیں جو اس دن ’’عورت مارچ‘‘ کے نام سے ریلی نکالتی ہیں اور اس میں مختلف قسم کے بینرز اور پلے کارڈ وغیرہ اٹھاتی ہیں جن پر کئی نعرے لکھے ہوتے ہیں’’ میرا جسم میری مرضی‘‘، ’’ اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پہ باندھ لو‘‘، ’’چادر چار دیواری گلی سڑی لاش کو مبارک‘‘، ’’عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے‘‘، ’’Divorced and Happy یعنی طلاق یافتہ لیکن خوش‘‘، ’’اپنا کھانا خود گرم کرو‘‘ وغیرہ۔ یہ نعرے ان مارچ کرنے والی خواتین کے خیالات، جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جمہوری ممالک میں احتجاج کا حق ہر کسی کو ہوتا ہے اس لیے خواتین کو حق حاصل ہے کہ وہ احتجاج کریں۔

مہناز رفیع معروف سماجی و سیاسی شخصیت اور کالم نگار ہیں، خواتین کی بہبود کیلئے کئی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔