لاہور: (دنیا نیوز) حکومتی نمائندوں اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے معاملے پر مذاکرات کا پہلا دور ختم ہو گیا۔
حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وفاقی وزیر ایاز صادق جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی، سید نوید قمر، ایم کیو ایم کی کشور زہرہ اور محمد ابو بکر مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔
مولانا فضل الرحمان کی جماعت کا کوئی نمائندہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ نہیں بنا، تحریک انصاف کی جانب سے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور معروف قانون دان سینیٹر علی ظفر نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے۔
تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور میں پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ دینے پر زور دیا، عمران خان جولائی تک قومی اسمبلی کی تحلیل چاہتے ہیں، جولائی کے بعد اسمبلی کی تحلیل پی ٹی آئی کو قبول نہیں ہوگی۔
عمران خان الیکشن کی تاریخ کو جولائی میں اسمبلی تحلیل کے ساتھ طے کرنا چاہتے ہیں، حکومتی ٹیم نے اتحادی جماعتوں سے مزید مشاورت کرنے کا کہا جس کے بعد مذاکرات کا پہلا دور ختم کر دیا گیا، حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کل 3 بجے دوبارہ ہوں گے۔
مذاکرات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ آج اتفاق ہوا ہے کہ ڈائیلاگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے آج اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی ہے، تحریک انصاف کل مطالبات پیش کرے گی، ہماری کوئی ڈیمانڈز نہیں ہیں، مطالبات سامنے آنے پر اپنی قیادت سے مشاورت کریں گے۔
اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ کل تفصیل سے ملاقات ہو گی، اتحادی حکومت کی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھیں گے، یہ اصول طے ہے کہ آئین میں رہ کر معاملات کو حل کرنا ہے، ریاست اور عوام کے مفادات کو مد نظر رکھ کر سب طے کرنا ہے۔
حکومتی اور تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیمیں ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کریں گی جس کے بعد رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی، سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے اتفاق رائے پائے جانے پر سپریم کورٹ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کے فیصلہ پر نظرثانی کر سکتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کا ایک ہی دن انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہ ہوا تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کا حکم برقرار رہنے کا امکان ہے، اگر سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرنے سے انکار کیا گیا تو حکومت کو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔