اسلام آباد: (جاوید حسین) حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابات کے معاملہ پر مذاکرات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔
ذرائع کے مطابق دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مذاکرات کھلے دل سے اور لچک کے ساتھ کیے جائیں گے، حکومتی وفد کی طرف سے واضح کیا گیا کہ انتخابات ایک ہی دن ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: انتخابات کیس: عدالت مذاکرات کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی، چیف جسٹس
حکومتی وفد کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کا 14 مئی کو انتخاب منظور نہیں ہے، تمام فیصلے پارلیمنٹ کی بالادستی کو سامنے رکھتے ہوئے کیے جائیں گے، یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے جمہوری قوتوں کے درمیان مذاکرات ہی بہترین راستہ ہیں، پیپلز پارٹی کی قیادت مذاکرات کے ذریعے معاملات کا حل چاہتی ہے۔
ذرائع کے مطابق سعد رفیق نے کہا کہ سابق سپیکر اسد قیصر کو اپنا نکتہ نظر کھل کر بتا چکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کا کہنا تھا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ڈیڈ لائن دی جائے، شاہ محمود قریشی نے موقف اپنایا کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے جولائی میں اسمبلی تحلیل کے ساتھ عام انتخابات ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت پیچھے نہیں ہٹ سکتی، ملک میں الیکشن کرانا پڑے گا، اعتزاز احسن
پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا کہ الیکشن سے قبل غیر جانبدار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے، عام انتخابات سے قبل ایسی نگران حکومتیں بنائی جائیں جو صحیح معنوں میں غیر جانبدار ہوں۔
ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ 2023-24 موجودہ قومی اسمبلی ہی پاس کرے گی، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ موجودہ معاشی حالات میں نگران حکومت کے لئے بجٹ بنانا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات: امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کر دیئے گئے
اعظم نذیر تارڑ کا موقف تھا کہ جولائی میں اگر قومی اسمبلی تحلیل کی جائے تو انتخابات 90 روز میں کروانا ہوں گے، قومی اسمبلی اپنی مدت 12 اگست کو مکمل کرے گی تو انتخابات 60 دن میں کرانا ہوں گے۔
حکومتی وفد کا کہنا تھا کہ ان دونوں صورتوں میں عام انتخابات اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں منعقد ہوں گے، یہی ہم چاہتے ہیں۔
ایم کیو ایم کی جانب سے کشور زہرا کا کہنا تھا کہ نئی مردم شماری کے نتیجے میں نئی حلقہ بندیاں کی جائیں اور پھر عام انتخابات ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: نیت صاف ہو تو سیاسی مسائل کا حل نکل سکتا ہے: شاہ محمود قریشی
ذرائع کے مطابق فریقین نے ایک دوسرے کا موقف اپنی اپنی قیادت کے سامنے رکھنے کا اظہار کیا، حکومتی وفد نے کہا کہ کل اپنے اتحادیوں سے مشاورت کے بعد مذاکرات میں آئیں گے، شاہ محمود قریشی نے بھی موقف اپنایا کہ ہم بھی اپنے چیئرمین کے سامنے حکومتی موقف رکھ کر مزید راہنمائی لیں گے۔