اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف کیس میں 23 تاریخ کی سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر لیے، اٹارنی جنرل نے صوبوں اور وفاق میں سویلین تحویل میں موجود افراد کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں 9 مئی کے واقعات میں ملوث کوئی ملزم موجود نہیں، پنجاب میں 616، کے پی میں 4، سندھ میں 172 افراد سویلین تحویل میں ہیں، بلوچستان سے تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نو مئی کے بعد پنجاب میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 42 کو بری کیا جا چکا ہے یا ضمانت پر رہا کیا گیا ہے، اس وقت 39 خواتین جوڈیشل کسٹڈی میں موجود ہیں، اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں 102 افراد فوج کی حراست میں ہیں، فوجی حراست میں کوئی خاتون، صحافی، نابالغ بچے یا وکلا نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی
جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ کو بھی تحریری فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے، جس میں انہوں نے فل کورٹ بنانے پر زور دیا ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ میں کہا کہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعتراضات سے متفق نہیں اور سپریم کورٹ کی کارروائی کی قانونی حیثیت پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں مزید لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اٹھائے گئے اعتراضات سے ہٹ کر عدالت میں ہم آہنگی اور توازن کیلئے فل کورٹ کو معاملہ سننا چاہیے، فل کورٹ کے بغیر دیئے گئے فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں ہو گی، نظام انصاف کا تعلق عوامی اعتماد کے ساتھ ہوتا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ایسے وقت میں جب انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے سپریم کورٹ بینچ کے بارے میں سیاسی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں، زیادہ سنجیدہ بات یہ ہے کہ بینچ کے اراکین نے تحریری اعتراض کیے ہیں، موجودہ بینچ کی تشکیل پر اٹھنے والے اعتراضات پر چیف جسٹس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عوامی اعتماد کا معاملہ ہے۔