اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ایک ماہ بعد حکومت ختم ہو جائے گی، اسلام آباد میں وفاقی وزراء نے اپنے دفاتر اور سرکاری رہائش گاہوں سے سامان پیک کرنا شروع کر دیا ہے۔ اقتدار کے ایوان میں نئے مکین کے آنے میں اب صرف چار ہفتے باقی ہیں، مگر یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ نگران سیٹ اَپ کون اور کتنے عرصے کیلئے چلائے گا؟۔
وزیر اعظم نے آئے روز مختلف سرکاری تقاریب سے خطاب کا سلسلہ شروع کر کے اپنی جماعت کی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے، اس کے باوجود انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال اپنی جگہ موجود ہے اور اس کی وجہ نہ صرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان نگران سیٹ اپ اور اس کے ماڈل پر اتفاق نہ ہونا ہے بلکہ حکومت کے بڑے سیاسی حریف کے مستقبل کا تاحال تعین نہ ہونا بھی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت کی جانب سے دبئی میں ہونے والی بات چیت پر اعتماد میں نہ لیے جانے پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا گیا جس کے بعد وزیر اعظم کی جانب سے ان کے تحفظات دور کئے گئے، بظاہر تو مولانا کا شکوہ یہ تھا کہ سابق حکومت کو گھر بھیجنے والی تحریک کے سربراہ کو موجودہ صورتحال پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا، مگر ذرائع کے مطابق مولانا آئندہ حکومت میں اہم آئینی عہدے کے امیدوار بھی ہیں، جس کے لیے انہوں نے ن لیگ سے یقین دہانی مانگی ہے۔
دوسری جانب میاں نواز شریف خود کو چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر تیار کر رہے ہیں اور ملکی معیشت اور اس کو درپیش چیلنجز سے متعلق معاملات میں دلچسپی لے رہے ہیں، انتخابات سے قبل وہ پاکستان پہنچ کر انتخابی مہم چلانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں مگر تاحال ان کی واپسی سے متعلق خاطر خواہ تیاریاں نظر نہیں آ رہیں، حکومت کی نگاہ اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف اور ان کی جماعت کے مستقبل پر ہے اور یہی انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہ ہونے کی وجہ ہے۔
حکومت نے انتخابات سے قبل ہنگامی اصلاحات کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے بیک ٹو بیک اجلاسوں میں انتخابی قوانین میں 73 ترامیم تجویز کر دی گئی ہیں، الیکشن ایکٹ میں ترامیم کا یہ عمل آئندہ چند روز میں مکمل ہو جائے گا، ان ترامیم میں انتخابی نظام پر چیک اینڈ بیلنس بڑھانے کے حوالے سے شقیں شامل کی جا رہی ہیں، اسی دوران ایک پرائیویٹ ممبر کی جانب سے ایک ایسی ترمیم سامنے آئی جسے میڈیا پر بھرپور شہرت ملی مگر کمیٹی نے اس کی حمایت نہیں کی۔
مجوزہ ترمیم کے تحت سیاسی جماعت پر پابندی کا طریقہ کار تبدیل کر کے یہ اختیار پارلیمان کو دینے کا کہا گیا، حکومت نے اس ترمیم کی حمایت اس لیے نہیں کی کیونکہ صرف الیکشن ایکٹ کی شق کو تبدیل کر کے ایسا نہیں کیا جا سکتا، الیکشن ایکٹ 2017 ء کے سیکشن 212 کے تحت وفاقی حکومت کو اگر اطلاع ملے کہ کوئی جماعت بیرون ملک سے مالی امداد لے رہی ہے اور ملکی سلامتی کے خلاف کام کر رہی ہے تو اسے ڈیکلریشن جاری کر کے 15 روز کے اندر معاملہ سپریم کورٹ بھجوانا ہوتا ہے، اگر سپریم کورٹ اس ڈیکلریشن کی توثیق کر دے تو پارٹی تحلیل ہو جاتی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والی جماعت کا کیس سپریم کورٹ کو بھجوانا ضروری ہے، کمیٹی کے سربراہ سردار ایاز صادق نے بھی واضح کر دیا کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا، حکومت کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف سمیت کسی بھی جماعت پر پابندی کی سب سے بڑی مخالف ہے۔
سابق وزیر اعظم کی جماعت کی بجائے ان کے خود الیکشن سے باہر ہونے کے امکانات پر شہر اقتدار میں چہ مگوئیاں سننے کو ملتی ہیں، توشہ خانہ کیس کے ٹرائل میں تیزی آ چکی ہے اور یہی وہ کیس ہے کہ اگر ان پر عائد الزام درست ثابت ہو جائے تو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی صورت میں ان کے سیاسی کیریئر کیلئے بڑا خطرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اس کیس کے میرٹ کے بجائے ٹیکنیکل نکات پر اس کی کارروائی میں قانونی رکاوٹ کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اس معاملے کو اسلاام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں دو مختلف گراؤنڈز پر چیلنج کر رکھا ہے، گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کے عمل کے دوران سابق وزیراعظم طلبی کے باوجود پیش نہیں ہو رہے جس کے بعد ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو سکتے ہیں، تحریک انصاف کی لیگل ٹیم خود یہ سمجھتی ہے کہ یہ کیس ان کی جماعت کے چیئرمین کی اہلیت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے، مگر فرد جرم عائد ہونے کے بعد کے مراحل اور گواہان کی درکار کم تعداد کو دیکھا جائے تو یہ کیس اب زیادہ طویل ہوتا دکھائی نہیں دیتا، فیصلہ جو بھی ہوا فریقین کے پاس ٹرائل کورٹ کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فورم موجود ہیں۔
ادھرجناح ہاؤس حملہ سمیت دہشت گردی کے مزید تین مقدمات میں سابق وزیر اعظم کی براہ راست نامزدگی ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی دکھائی دیتی ہے، جولائی کا آخری ہفتہ اور اگست کا آغاز قانونی لحاظ سے ان کیلئے بہت اہم ہے، تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافے نے جہاں حکومت کیلئے آسانی پیدا کی وہیں معاشی میدان سے اچھی خبروں نے اس کے اعتماد میں اضافہ کیا۔
آئی ایم ایف پروگرام کے بعد سعودی عرب سے دو ارب ڈالرز اور یو اے ای سے ایک ارب ڈالرز ملنے کے بعد پاکستان سے معاشی غیر یقینی کے بادل چھٹنے لگے ہیں جس سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی حکمران جماعت نے سکھ کا سانس لیا ہے کہ اس کے پاس عوام کے پاس جا کر بتانے کیلئے تو کچھ آیا، مگر عوام کی عدالت میں جانے سے قبل حکومت کو عوامی ریلیف کے اقدامات اور اعلانات کرنا ہوں گے۔