لاہور: (محمد سلمان) وبائیں انسانی آبادی کو صدیوں سے اپنا ہدف بنا رہی ہیں، یہ کئی قدیم سلطنتوں کی تباہی کا سبب بنیں اور انہوں نے کئی اہم شہروں کو برباد اور ویران کر دیا، علم محدود ہونے کی وجہ سے دور قدیم کا انسان انہیں پوری طرح سمجھ نہیں پایا اور اس نے انہیں بہت سی مافوق الفطرت چیزوں سے منسوب بھی کیا، کسی انسان سے بھی بعض اوقات ایسی باتیں منسوب کر لی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔
ہزاروں سال قبل بقراط نے اپنے علم، مشاہدے، تجربے اور سخت محنت سے دریافت کر لیا تھا کہ کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی علاقے میں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں اور اس طرح ایک شخص سے دوسرے کو بہت جلدی متاثر کر دیتی ہیں، ایسی بیماریوں میں طاعون، جسے کالی موت بھی کہا جاتا تھا بلکہ اب بھی کہا جاتا ہے، بہت ہی تیزی سے پھیلتی ہے اور ایک دن میں ہزاروں، لاکھوں انسانوں کی موت کا باعث بن سکتی ہے، اسی طرح ہیضہ، چیچک، جذام، خناق اور متعدی بخار وغیرہ وبائی امراض کے زمرے میں آتے ہیں، بقراط نے ان وبائی امراض کو دریافت کر کے ان کے علاج بھی تجویز کئے۔
بقراط ایک ذہین اور بابغہ روزگار طبیب تھا، اس نے طبی دنیا میں زبردست انقلاب برپا کیا اور اس کے طریقہ علاج اور ضابطہ اخلاق نے دائمی شہرت حاصل کی، بقراط کی ذاتی زندگی کے متعلق بہت سی کہانیاں منسوب ہیں، ان میں سے زیادہ تر کہانیاں سچی نہیں ہیں کیونکہ تاریخی حوالے سے ان کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔
بقراط نے شاندار زندگی بسر کی اور وہ اپنی زندگی میں ہی ’’بقراط عظیم‘‘ کہلایا جبکہ اس کی زندگی سے کئی غیرمعمولی کہانیاں وابستہ کر دی گئی ہیں، بقراط کے متعلق ایک غیر معمولی کہانی وابستہ ہے کہ جب ایتھنز میں طاعون کی وباء پھیل گئی تو بقراط نے پورے شہر میں آگ کے بڑے بڑے الاؤ جلا کر شہر سے طاعون کی بیماری کے جراثیموں کو ختم کر دیا یعنی ڈِس انفیکٹ کر دیا جبکہ تاریخی حوالے سے ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے۔
بقراط سے منسوب ایک دوسری کہانی ہے کہ مقدونیہ کا بادشاہ پریڈیکس ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھا کہ اس بیماری کی سمجھ کسی طبیب کو نہ آتی تھی، بقراط نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بتا دیا کہ بادشاہ محبت کی بیماری (لَو سِکنس) میں مبتلا ہے اور اس طرح بادشاہ کی مطلوبہ محبوبہ سے شادی کر کے اس کو تندرست کر دیا، اس کہانی کے بھی کوئی تاریخی شواہد نہیں ہیں بلکہ یہ کہانی بقراط سے بلاوجہ منسوب کر دی گئی ہے۔
تیسری کہانی ایران کے شہنشاہ کے متعلق ہے کہ شہنشاہ آردشیر نے بقراط کو ایران بلوایا، بہت سا مال و دولت بقراط کو بھجوایا کہ وہ ایران آ کر ایرانی شہریوں کا علاج کرے لیکن اس نے ایران کے شہنشاہ کی درخواست کو ٹھکرا دیا اور ایران نہ گیا، یہ کہانی بھی تاریخی شواہد سے خالی ہے اور اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔
چوتھی کہانی جو بقراط سے منسوب کی جاتی ہے اس کا تعلق عظیم سائنسدان اور فلسفی ڈیماکریٹس سے ہے، کہا جاتا ہے کہ ڈیماکریٹس کو عادت تھی کہ وہ ہر کسی کے ساتھ ہنس کر بات کیا کرتا تھا اور اسے ہنسنے کی بیماری تھی، ڈیماکریٹس کو کسی نے مشورہ دیا کہ تم جا کر بقراط سے اپنی بے تکی ہنسی کا علاج کراؤ، ڈیماکریٹس جب بقراط کے پاس گیا تو بقراط نے اس کو ایسا سنجیدہ کر دیا کہ وہ ہنسنے کے بجائے اداس رہنے لگا، اس حد تک تو بات صحیح ہے کہ ڈیماکریٹس کو آج بھی ہنستا ہوا فلسفی یا لافنگ فلاسفر کہا جاتا ہے لیکن اس نے کبھی بقراط سے اپنی ہنسی کا علاج کروایا ہو، ایسی کوئی شہادت تاریخ میں نہیں ملتی جبکہ ہنسنا اور خوش رہنا کوئی بیماری ہی نہیں ہے۔
پانچویں کہانی بقراط کی موت کے بعد اس کی قبر سے منسوب ہے، جالینوس جو کہ بقراط کا بہت زیادہ مداح اور شارح ہے، اس نے بیان کیا ہے کہ بقراط کی قبر پر شہد کا چھتا تھا، جو کوئی مریض خواہ کسی بھی مرض میں مبتلا ہوتا، اس شہد کے چھتے سے شہد کھا لیتا تو اس کی بیماری فوراً ختم ہو جاتی، اس کہانی کے بھی کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے بلکہ یہ کہانی عقیدت کے طور پر بقراط سے وابستہ کر دی گئی ہے۔
چھٹی کہانی بھی اس کی موت کے بعد اس سے منسوب کی گئی۔ جالینوس نے اس کہانی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ بقراط نے اپنی موت سے کچھ دیر پہلے ہاتھی دانت کا خوبصورت بند ڈبہ اپنے شاگردوں کو دیا اور وصیت کی کہ اس ڈبے کو بھی اس کی میت کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا جائے، وہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا ڈبہ بھی اس کی قبر میں اس کے ساتھ دفن کر دیا گیا، ایک عرصہ گزر جانے کے بعد اتفاق سے قیصر روم کا گزر بقراط کی قبر کے قریب سے ہوا، اس وقت قبر بہت ہی خستہ حال ہو چکی تھی، قیصر روم کو جب بتایا گیا کہ یہ قبر عظیم طبیب بقراط کی ہے تو قیصر روم نے حکم دیا کہ قبر کو دوبارہ بقراط کے شایانِ شان تعمیر کیا جائے۔
جب قبر کی تعمیر کیلئے بنیادیں کھودی جا رہی تھیں تو کھدائی کرنے والے کوایک خوبصورت منقش ہاتھی دانت کا ڈبہ ملا جو کہ بند تھا، جب وہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا ڈبہ قیصر روم کو دکھایا گیا تو اس نے اسے کھولنے کا حکم دیا، جب ڈبہ کھولا گیا تو اس میں ایک کتاب تھی، جس میں 25 ایسے امراض لکھے ہوئے تھے جن کے بارے میں معلوم ہو جاتا تھا کہ مریض کتنے دنوں کے بعد مرجائے گا، یہ کہانی بھی بے معنی ہے اور تاریخی لحاظ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
بقراط کے متعلق ایک کہانی اس کے پہلے سوانح نگار سورانوس نے بھی بیان کی ہے، سورانوس کا کہنا ہے کہ یونان میں ایک شفائی مندر (ہِیلنگ ٹمپل) تھا، اس مندر کو بقراط نے ایک دن آگ لگوا دی اور وہاں سے چلا گیا، یہ مندر کنڈوس میں واقع بھی، جبکہ بقراط ایک دوسرا سوانح نگار ٹیزیٹزس (Tzetzes) کہتا ہے کہ یہ بقراط کا آبائی مندر تھا اور اس کے اپنے شہر کوس میں واقع تھا لیکن دونوں نے اس مندر کو آگ لگانے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی۔
بقراط کے متعلق یہ تمام کہانیاں اس کو ایک لیجنڈ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جبکہ بقراط کے شاندار کام جو کہ انسانیت کی فلاح کیلئے ہیں، اس کو عظیم بنانے کیلئے کافی ہیں۔
محمد سلمان گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں انگلش ادب کے طالبعلم ہیں، ان کے مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔