ابو الاثر حفیظ جالندھری

Published On 19 December,2023 03:39 pm

لاہور: (صابر علی) قومی ترانہ کسی بھی قوم کی شناخت اور انہیں حب الوطنی کے جذبات سے سرشار کرنے کا نام ہے، اس کے الفاظ کوئی عام الفاظ نہیں بلکہ اپنے اندر جادوئی اثر اور تاثیر رکھتے ہیں، قومی ترانہ کے ذریعے قوموں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔

اس کے تقدس کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جب بھی قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ گایا جاتا ہے، چھوٹا ، بڑا ، ادنیٰ و اعلیٰ بصد احترام ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں، دیگر ممالک کی طرح کا پاکستان کا ایک قومی ترانہ اور اس کی میوزک کمپوزیشن ہے، ہر اہم مواقع پر جب قومی جذبات کی ترجمانی مقصود ہو، قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ بجایا جاتا ہے، پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کی سعادت مایہ ناز شاعر ابوالاثر حفیظ جالندھری کو حاصل ہوئی اور انہوں نے یہ قومی ترانہ لکھ کر اپنا نام ہمیشہ کیلئے پاکستان کے ساتھ جوڑ لیا۔

حفیظ جالندھری ان شاعروں میں سے ہیں، جنہوں نے بالخصوص پاکستان بننے کے بعد اپنی شاعری کا لوہا منوایا، انہوں نے معترضین کی خاطر خواہ پروا نہ کی اور ان کے تمام اعتراضات کے باوجود اپنی روش کو جاری رکھا اور یہی وجہ ہے کہ بالآخر ان کے معترضین بھی ان کو ماننے پر قائل ہوگئے، قومی ترانے کی منظوری نے ان کی شہرت و مقبولیت میں بے انتہا اضافہ کیا، ابوالاثر حفیظ جالندھری کو ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

حفیظ جالندھری کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جو موسیقی پر بھی پوری پوری دسترس رکھتے تھے، قومی ترانے کے ضمن میں بھی حفیظ جالندھری کو اس لئے کامیابی ہوئی کہ اس وقت صرف قومی ترانے کی دھن بنائی جا چکی تھی اور اس پر وہ لکھنا تھے اور شاعروں کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ ان کو موسیقی کا علم نہ تھا اور موسیقاروں کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ ان کو شاعری کا پتہ نہیں تھا۔

حفیظ جالندھری دونوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے کامیاب رہے اور اس خوبصورتی سے اس دھن میں الفاظ کو سمویا کہ دنیا دیکھ کر دنگ رہ گئی، اس طرح پانچ سو سے زائد موصول ہونے والے ترانوں میں حفیظ جالندھری کا ترانہ قبول کر لیا گیا اور وہی آج ہمارا قومی ترانہ ہے، جو دنیا بھر میں ہماری پہچان ہے اور ہر جگہ، خاص موقع پر پڑھا اور بجایا جاتا ہے۔

حفیظ جالندھری کی ایک خوبی ان کی شخصیت اور شاعری میں موسیقیت ہے، حفیظ جالندھری کو اردو ادب میں جس وجہ سے زیادہ مقام حاصل ہے وہ ان کی گیت نگاری ہے، انہوں نے گیت کی صنف کو ایک ایسے عروج پر پہنچایا ہے جو اس سے پہلے شاید کبھی اردو زبان میں نہیں تھا، حفیظ جالندھری کی گیت نگاری کا ذکر ہو تو گیت ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ سب سے پہلے سامنے آتا ہے جو شاید ان کا سگنیچر بن چکا ہے، اس گیت کی روانی اور اس کی موسیقی دیکھیے تو یوں ہے کہ جیسے کوئی آدمی برف پر پھسلتا ہی چلا جا رہا ہو کہیں کسی جگہ پر رکاوٹ یا بہاؤ میں کوئی مزاحمت ہمیں محسوس نہیں ہوتی۔

ابوالاثر حفیظ جالندھری کے زورِ کلام اور ان کی اہم تصنیف ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کی سبھی جلدیں اپنی مثال آپ ہیں جو خصوصیتیں کتاب کی پہلی جلدوں میں ہیں وہ تیسری میں بھی بدرجہ ٔاتم موجود ہیں بلکہ زبان سادہ اور پر اثر ہے، رزم کے مناظر پر زور الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں اور جہاں بزم کا رنگ درکار ہے وہاں کلام بھی اسی رنگ کا ہے۔

ابتدائی تصنیف میں جو مقصد مصنف نے پیش نظر رکھا تھا کہ پیغمبرﷺ برحق اور بہادر ان اسلام کے کارنامے سنا کر اس زمانے کے مسلمانوں کے دلوں کو گرمانے اور ان کے ایمان کو زندہ کرے وہی مقصد اس میں بھی مدنظر ہے، مستند روایات کو منظم کرنے کا التزام بھی مثل سابق موجود ہے اور اکثر روایات کے ساتھ ان کے حواشی اور حوالے بھی درج ہیں جن سے وہ روائتیں لی گئی ہیں۔

اس اہتمام کی وجہ شاید یہ خواہش ہے کہ ’’شاہنامہ اسلام‘‘ اچھے اشعار کا مجموعہ ہونے کے علاوہ علمی کتاب کی حیثیت سے بھی ممتاز ہو۔ اس لئے مصنف نے جا بجا کتابوں کے حوالے دیئے ہیں اور بہت تلاش سے روایات جمع کی ہیں، ان کتابوں کے پڑھنے میں جو وقت صرف ہوا ہوگا، اس سے ثابت ہے کہ مصنف نے فقط شاعری نہیں کی بلکہ علمی تحقیقات کی بھی قابلیت دکھائی ہے، ممکن ہے کہ وہ لوگ جو محض ذوق سخن کی خاطر اس نظم کو پڑھیں گے وہ علمی تحقیقات والے حصوں کو قدرے خشک پائیں مگر حفیظ نے ان کی دلچسپی کیلئے بھی کافی سامان مہیا کر دیا ہے۔

اس جلد کی تصنیف کے دوران حفیظ نے علاوہ کثرت مطالعہ کے ایک اور ذریعہ سے اپنی معلومات کو بڑھایا ہے یعنی سیاحت یورپ، وہ 1938ء کی ابتدا میں سفر یورپ کیلئے گئے اور چھ مہینے وہاں رہے، انہوں نے زیادہ وقت لندن میں صرف کیا اور کوئی دو مہینے انگلستان کے ساحلِ بحر پر رہے، کچھ دن پیرس اور فرانس کے جنوب میں، اس زمانے میں انہوں نے چند نئی نظمیں بھی لکھیں۔ جو وہاں رہے بغیر اور وہاں کے حالات دیکھے بغیر نہ لکھی جا سکتیں۔

ایک نظم’’ نیرنگ فرنگ‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی جو نہایت دلچسپ مشاہدات سے پر ہے اور بہت مقبول ہوئی ہے اور دوسری کا عنوان ہے ’’اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے‘‘، یہ بھی بہت پسند کی گئی ہے، یہ نظمیں ایک طرح کا حاصل سفر ہیں مگر اس سے زیادہ ماحصل وہ علمی تحقیقات کا ذوق ہے جو شاہنامہ اسلام کا طرۂ امتیاز ہے، یہ ذوق وہاں کے ذی علم لوگوں کے طریق کار کو دیکھ کر پیدا ہوا ہے۔

یورپ کے سفر کا ارادہ حفیظ صاحب نے صحت کی بہتری کی امید سے کیا تھا اور ایک حد تک ان کی صحت کو فائدہ بھی ہوا، مگر سب سے بڑا کام جو اس ششماہی میں ہوا جو انہوں نے یورپ میں بسر کی اور جلد سوم کا پہلا نصف ان دنوں میں تیار ہو گیا، مکہ سے مشرکین کا جو لشکر مدینے پر چڑھائی کرنے اور نوزائیدہ اسلامی مملکت و ریاست کو مٹانے کی خاطر نکلا، اس کا احوال شاہنامہ میں کچھ یوں بیان ہوا ہے:

قیامت آ گئی ہر شخص تیاری لگا کرنے
ہر اک تائید خونریزی و خونخواری لگا کرنے
درستی ہو گئی جھٹ نیز و شمشیر و خنجر کی
چڑھی آندھی مدینے کی طرف باطل کے لشکر کی
نصر، بونجتری، حرث ابن عامر تھے یہ سب افسر
ابو جہل اور عتبہ اور شیبہ تھے یہ سر لشکر
چلے وہ سب کے سب جن کو پیمبرؐ سے عداوت تھی
منبہ اور رقعہ، عاص بن ہشام و عقبر بھی
یہ لشکر مشتمل تھا ساڑھے گیارہ سو جوانوں پر
دلوں میں بغض، نعرے کفر کے ان کی زبانوں پر
یہ لشکر بڑھ رہا تھا کعبہ توحید ڈھانے کو
مسلمانوں سے لڑنے کو، مدینے کے گرانے کو

شاہنامہ اسلام حفیظ کی رزم نگاری پہ مہارت کو بھی ظاہر کرتا ہے، اس کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کامیابی دی، قرون اولیٰ کے رہبران اسلام کے کارناموں کو نظم کا لباس پہنانے کی جو طرز حفیظ نے اختیار کی اس کی تقلید جا بجا ہونے لگی اور کئی لکھنے والوں نے اسی طرز پر نظمیں کہیں، قبول عام اس تصنیف کو اس قدر حاصل ہوا کہ قومی مجالس میں جب اسے پڑھ کر سنایا گیا تو کوگوں نے انتہائی توجہ اور شوق سے سنا اور جہاں کہیں لوگوں کو خود مصنف سے’’ شاہنامہ اسلام ‘‘سننے کا موقع ملا وہاں جیسے محویت طاری ہو گئی۔

تعارف
قومی ترانے اور ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کی 41 ویں برسی 21 دسمبر کو منائی جائے گی، حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء کو بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے، ان کا نام محمد حفیظ رکھا گیا، قلمی نام حفیظ جالندھری تھا اور ابوالاثر حفیظ جالندھری کا نام مولانا غلام قادرگرامی نے دیا،وہاں کی جامع مسجد سے قرآن مجید ناظرہ پڑھا، مشن ہائی سکول میں داخل ہوئے اور بعد ازاں گورنمنٹ ہائی سکول جالندھر میں داخلہ لیا، حصول علم کیلئے دوآبہ آریہ سکول میں ایڈمشن حاصل کیا، یہیں سے ان کے دل میں جذبہ حریت بیدار ہوا، انہیں اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور حاصل تھا۔

ادبی کاوشوں کی ابتداء 1922ء میں کی، 1922ء سے 1929ء تک کے عرصے میں وہ متعدد ادبی جرائد کے ایڈیٹر رہے، کالم نگاری سے بھی وابستہ رہے، 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی انھوں نے کئی پرجوش نظمیں لکھیں، ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’نغمہ زار‘‘ 1935 میں شائع ہوا، ان کے ہر شعر میں لطافت اور مٹھاس بھری ہوتی ہے۔

حفیظ جالندھری گیت نگاری میں بھی یکتا ہیں، انہوں نے گیت کی صنف کو ایک ایسے عروج پر پہنچایا ہے جو اس سے پہلے شاید کبھی اردو زبان میں نہیں تھا، انہوں نے اردو شاعری اور پاکستان کیلئے مثالی خدمات سر انجام دیں اور قومی ترانہ تحریر کر کے ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے،’’ شاہنامہ اسلام‘‘ لکھ کر اسلامی دور کی ابتدائی جنگوں کو نہایت پْر اثر انداز میں نظم کا جامہ پہنانے کا آغاز کیا۔

حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے، ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ اور ’’صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا گیا، 21 دسمبر 1982ء کو 82 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا، انھیں امانتاً ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کیا گیا، 1988ء میں اقبال پارک میں ان کے مزار کی تعمیر کا کام شروع ہوا، جس کی تکمیل 1991ء میں ہوئی۔

صابر علی محقق، لکھاری اور دانشور ہیں، فلسفہ پر آپ کے مضامین مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں، متعدد کتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔