آلو۔۔۔ جو دس لاکھ ہلاکتوں کا باعث بنا

Published On 24 June,2024 12:10 pm

لاہور: (خاور نیازی) کیا ایسا کبھی سوچا بھی جا سکتا ہے کہ ایک آلو کسی انسان کی ہلاکت کا باعث بنا ہو؟ بادی النظر میں ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن تاریخ کے اوراق میں ایسا ایک واقعہ درج ہے جس کے مطابق آئر لینڈ میں 1845ء سے 1849ء کے درمیان آلووں کے سبب دس لاکھ سے زائد انسانی ہلاکتوں کا ذکر ملتا ہے ( جبکہ بعض کتابوں میں ان ہلاکتوں کی تعداد بیس لاکھ بتائی جاتی ہے)۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان آلووں کی وجہ سے 30 لاکھ سے زائد افراد آئرلینڈ سے مختلف ممالک کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور بھی ہوگئے تھے۔

یہ سن کر قدرتی طور پر ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اس سانحہ کا سبب آخر کیا تھا؟ جہاں تک وجوہات کا تعلق ہے، مورخین کے بقول ’’ہر سانحہ کے پیچھے اس کی ایک تاریخ ہوا کرتی ہے‘‘، چنانچہ اس سانحہ کی تہہ تک پہنچنے کیلئے ہم بھی ’’آلو کی تاریخ‘‘ کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہیں۔

آلو۔۔ تاریخ کے آئینے میں
ایک امریکی مصنفہ ربیکا ارل اپنی ایک تصنیف ’’فیڈنگ دا پیپل ‘‘ کے ایک باب ’’ دا پالیٹکس آف دا پوٹیٹو ( لوگوں کی خوراک: آلو کی سیاست ) میں کہتی ہیں ’’ اس سادہ سی شے یعنی آلو کا اصل وطن جنوبی امریکہ کا خطہ انڈیز ہے جبکہ اس کی دریافت کا سہرا ہسپانوی فاتحین کے سر ہے جنہوں نے 15 ویں صدی کے آخر میں ماونٹ انڈیز میں آلو دریافت کیا تھا۔

بنیادی طور پر یہ آج سے لگ بھگ آٹھ ہزار سال پہلے انڈیز میں لیک ٹیٹی کاکا کے مقام پر گھریلو استعمال میں آچکا تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت آلو صرف ایک جنگلی فصل ہوا کرتی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈیز میں آلو کیلئے انتہائی موزوں اور موافق جینیاتی تنوع پایا جاتا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک آلو کو اپنی غذا کا اہم حصہ بنانے کیلئے بے قرار تو تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ سپین اور یورپ کے دیگر حصوں میں دن کی طوالت یعنی بارہ گھنٹے مسلسل دھوپ نے آلو کی کاشت کا ان علاقوں میں ساتھ نہ دیا۔

مختلف تجربات کے بعد جب انہوں نے خزاں میں یعنی موسم سرما کے آغاز سے قبل اسے کاشت کیا تو یہ خوب پھلا پھولا، دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع شروع میں یورپ میں آلو کو ایک جنگلی فصل کا طعنہ دے کر کبھی زہریلا اور کبھی اسے مرگی کا ذمہ دار ٹھہرا کر نظر انداز کیا جاتا رہا، لیکن رفتہ رفتہ دنیا کے دیگر خطوں کی مانند یہ یورپ میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔

سپین کے دیکھا دیکھی 1580ء میں آئر لینڈ نے بھی اس فصل کو خزاں کے ٹھنڈے موسم یعنی کہر کے موسم سے پہلے پہلے کاشت کرنا شروع کیا تو یہاں بھی اس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے جبکہ آئر لینڈ سے 1600ء میں آلو برطانیہ اور پھر شمالی یورپ جا پہنچا، سترہویں صدی کے آغاز میں یورپ سے آلو برصغیر پہنچا ، اس کے کچھ ہی عرصہ بعد بھارت سے چین پہنچا۔

1650ء میں یہ جرمنی ، یروشیا اور پھر 1740ء میں پولینڈ میں بھی کاشت ہونا شروع ہوا، اس کے ایک صدی بعد یعنی لگ بھگ 1840ء میں آلو روس میں بھی پنجے گاڑھنے میں کامیاب ہوگیا، یہاں اکثر ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ایک سادہ سا اناج آلو جو انڈیز سے اپنی شروعات کرتا ہے،محض چند صدیوں میں پوری دنیا کی مقبول ترین غذا کیسے بنا ؟

آلو کی مقبولیت کا سبب کیا تھا ؟
آلو شاید ان چند فصلوں میں شامل ہے جو دنیا کے سب سے زیادہ ملکوں کی مقبول ترین غذا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ انڈیز کی اس فصل نے محض چند صدیوں میں دنیا کے کونے کونے میں اپنی جگہ بنا لی، بادی النظر میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی مقبولیت کی وجہ اس کی بے پناہ غذائیت ہے، دیگر زرعی اجناس کے مقابلے میں اس کی اوسط پیداوار بہتر ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر زیر زمین اگنے کی صلاحیت اسے دوسری اجناس سے اس لئے ممتاز کرتی تھی کہ گئے دنوں کی جنگوں میں یہ لگان وصول کرنے والوں کی نظروں سے اوجھل رہتی تھی۔

اس کے علاوہ آلو کسانوں کیلئے ایک قیمتی فصل کا درجہ اختیار کر گئی کیونکہ باقی فصلوں کے مقابلے میں اس کی فی ایکڑ پیداواری آمدن کئی گنا زیادہ تھی، اس کے ساتھ ساتھ اسے کاشت کرنا اور ذخیرہ کرنا بھی نسبتاً آسان تھا۔

آلو بارے ماہرین غذائیت اور معالجین کہتے ہیں ’’آلو میں وٹامن اے اور وٹامن ڈی سمیت تمام غذائی اجزاء بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زندگی کیلئے ضروری غذائی عوامل کی وجہ سے کوئی دوسری غذا اس جنس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے‘‘۔

معروف عالمی جریدہ ’’کوارٹرلی جرنل آف اکنامکس‘‘، اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں آلو کے خواص پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے ’’آلو کھانے والوں کے قد میں ڈیڑھ انچ تک کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے، ایک معاشی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 1700 کے بعد پیدا ہونے والے فرانسیسی فوجی جو آلو کھاتے تھے وہ دوسروں کے مقابلے میں دراز قد کے مالک تھے‘‘، بعض محققین کے مطابق 1700ء اور 1900ء کے درمیان دنیا کی آبادی میں ایک چوتھائی اضافہ آلو کی وجہ سے ہوا تھا۔

محققہ ارل کہتی ہیں ، انڈیز میں اس کے جنم کے باوجود یہ ایک زبردست کامیاب عالمی غذا ہے، اب یہ دنیا کے ہر خطے میں پیدا ہوتا ہے اور دنیا کے ہر حصے کے لوگ اسے اپنی خوراک سمجھتے ہیں، ایک جگہ ارل اس کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں، آلو ، گندم، چاول اور مکئی کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا اناج ہے جبکہ غیر اناج میں یہ دنیا کی سب سے بڑی فصل ہے۔

آلو پر مکمل انحصار آئر لینڈ کو لے ڈوبا
16 ویں صدی سے ہی آئر لینڈ وہ واحد ملک تھا جس نے زرعی اجناس کی دنیا میں آلو کی کاشت پر اپنا انحصار حد سے زیادہ بڑھا لیا تھا، اس کی ایک تو سب سے بڑی وجہ آلو کو زیادہ سازگار موسم کا میسر آنا تھا جبکہ اس کے علاوہ یہ مقامی طور پر ایک مقبول ترین غذا بھی بن چکا تھا جس کی وجہ سے آئر لینڈ نے رفتہ رفتہ باقی اجناس پر انحصار اتنہائی کم کر دیا تھا، آلو پر آئرلینڈ کا انحصار اس وقت تک جاری رہا جب تک آئرلینڈ میں 1845ء اور1849ء کے درمیان شمالی امریکہ سے آئے ایک وائرس نے آئر لینڈ کی آلو کی فصل کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔

چند عشروں پر محیط فاقہ کشی نے جہاں دس لاکھ سے زیادہ جانیں لے لیں اور تیس لاکھ افراد کو دوسرے ممالک میں ہجرت پر مجبور کر دیا وہیں آئر لینڈ کی سماجی اور معاشی زندگی پرانمٹ نقوش بھی چھوڑے، بعض ماہرین کے بقول آلو جو آئرلینڈ کے لوگوں کی زندگیوں کا ضامن تھا اب وہی ان کی موت کا سبب بنا‘‘۔

اس قحط کے بعد لوگوں میں کم از کم یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ حکومتی غلط منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ملک کی 80 فیصد غذائی ضروریات کا انحصار آلو جبکہ صرف 20 فیصد دیگر اجناس پر کیا جاتا تھا، جو بالآخر آئرلینڈ کی تباہی کا سبب بنا ‘‘۔
آئرلینڈ کی آبادی میں آلو کی بدولت سو سال میں 60 لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا تھا جبکہ آلو کی فصل تباہ ہونے کی وجہ سے آئر لینڈ کی آبادی میں چھ سال میں 20 لاکھ کی کمی واقع ہوئی تھی۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔