لاہور: (محمد اسلم میر) حکومت آزاد جموں و کشمیر اور کل جماعتی حریت کانفرنس نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ مسئلہ جموں و کشمیر پر یک نکاتی موقف 'حق خود ارادیت' کو بنیاد بنا کر مستقبل میں تحریک آزادی جموں وکشمیر کو مشترکہ طور پر ملکی اور عالمی سطح پر اجاگر کریں گے۔
مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی بھارت سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ اس کے مکمل الحاق تک دنیا بھر میں مقیم اور آباد ہر کشمیری رائے شماری اور حق خود ارادیت کو اپنا قومی موقف سمجھ کر تحریک آزاد جموں و کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اپنی جدوجہد نہ صرف جاری رکھے گا بلکہ اسے اور بھی تیز کرے گا تاکہ دنیا کے کونے کونے تک کشمیریوں کی آواز پہنچ جائے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس اور حکومت آزاد جموں وکشمیر نے اس بات کا فیصلہ گزشتہ روز اس وقت کیا جب وزیر اعظم چوہدری انوار الحق اپنی کابینہ کے سینئر ارکان کے ہمراہ حریت کانفرنس کے نو منتخب کنوینئر غلامی محمد صفی کو مبارکباد دینے اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کل جماعتی حریت کانفرنس کے دفتر پہنچ گئے، کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینئر کا انتخاب حریت کی جنرل کونسل دو سال کی مدت کے لئے کرتی ہے۔
وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے ساتھ وزرائے حکومت پیر محمد مظہر سعید شاہ، چوہدری ارشد، اکمل سرگالہ اور چوہدری اکبر ابراہیم بھی تھے، وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ ان کا وزرا کے ہمراہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے دفتر آنے کا بنیادی مقصد حریت کانفرنس کی قیادت کو مبارکباد پیش کرنا اور یکجہتی کے اس عزم کو دہرانا تھا کہ حکومت آزاد جموں وکشمیر اپنےتمام دستیاب سرکاری وسائل تحریک آزادی جموں وکشمیر کے لئے وقف کرے گی۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے قائدین نے گزشتہ چند ہفتوں میں اسلام آباد سے کراچی اور کراچی سے لاہور تک اہل پاکستان کے ساتھ ملکر ریلیاں نکالیں اور پیغام دیا کہ اہل پاکستان کا اہلیان کشمیر کے ساتھ جو رشتہ ہے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا اور مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کی عوام سرینگر کی گلیوں میں استحکام پاکستان کی جنگ لڑ رہی ہے جس پر حکومت آزاد جموں وکشمیر ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
پاکستان ہی مقبوضہ و آزاد جموں و کشمیر کی عوام امنگوں کا مرکز ہے اور کشمیری مکہ و مدینہ کے بعد پاکستان کو ہی مقدس سمجھتے ہیں، کشمیری جہاں اور جس حالت میں بھی ہوں وہ پاکستان کے بغیر وردی کے سپاہی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس مقبوضہ جموں وکشمیر کی سیاسی، مذہبی، سماجی ، وکلا اور تاجر جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد ہے جو مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کے مستقل اور دیر پا حل کے لئے اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے 1993 سے سیاسی جدوجہد میں مصروف ہے، کل جماعتی حریت کانفرنس کی بنیاد 1993 میں سرینگر کی مرکزی جامع مسجد میں سید علی شاہ گیلانی ، پروفیسر عبد الغنی بٹ ، اشرف صحرائی ، مولانا عباس انصاری ، خواجہ عبد الغنی لون اور دیگر ہزاروں رہنماؤں اور ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کی موجود گی میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے قبل رکھی گئی تھی۔
اس وقت کل جماعتی حریت کانفرنس کے ہزاروں کارکنان اور یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم ، ظفراکبر بٹ ، آسیہ اندرابی اور سیکڑوں لیڈر گرفتار ہیں، بھارت نے پانچ اگست 2019 کا قدم اٹھانے سے پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر کی سب سے پرانی اور منظم سیاسی، فلاحی و مذہبی جماعت یعنی جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی اور اس کے ہزاروں کارکنان اور قائدین کو گرفتار کرکے مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت کی مختلف ریاستوں کے جیلوں میں پابند سلاسل کر دیا جن میں جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر عبد الحمید فیاض اور سیکرٹری جنرل فہیم رمضان بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے پچاس کروڑ روپے نقد اور اربوں روپے کے اثاثہ جات قابض حکومت نے اپنی تحویل میں لے لئے جبکہ جماعت اسلامی کے فلاح عام ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والے ہزاروں تعلیمی ادارے جن میں سو فیصد سکول اور کالجز ہیں کو بند کر دیا۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں آج بھی بھارت کل جماعتی حریت کانفرنس کے بعد جماعت اسلامی جموں وکشمیر کو ہی سب سے بڑا سیاسی خطرہ سمجھتا ہے کیوں کہ اس کا منظم نیٹ ورک مقبوضہ جموں وکشمیر کے ہر علاقے میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے اور اس کے کارکنان میں اعلیٰ پڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے اور اس کے ہزاروں کارکنان اور قائدین کو گرفتار کرکے مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت کی مختلف ریاستوں کے جیلوں میں پابند سلاسل کر دیا جن میں جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر عبد الحمید فیاض اور سیکریٹری جنرل فہیم رمضان بھی شامل ہیں۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں آج بھی بھارت کل جماعتی حریت کانفرنس کے بعد جماعت اسلامی جموں وکشمیر کو ہی سب سے بڑا سیاسی خطرہ سمجھتا ہے کیوں کہ اس کا منظم نیٹ ورک مقبوضہ جموں وکشمیر کے ہر علاقے میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے اور اس کے کارکنان میں اعلیٰ پڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔