اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) عدالتی چھٹیاں ختم ہونے میں چار روز باقی ہیں، جس کے بعد ملکی سیاست اور عدالتی محاذ پر کئی ڈویلپمنٹس ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
یوں تو ہر سال معمول کے مطابق ستمبر میں نئے عدالتی سال کا آغاز ہوتا ہے مگر اس بار نئے عدالتی سال کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کہ عدالتی چھٹیوں کے دوران حکومت نے عدلیہ سے متعلق کئی اقدامات اٹھانے کی کوشش کی، کئی پلان زیر غور ہیں اور کچھ پر عملدرآمد شرو ع ہو چکا ہے۔
ان تمام چیزوں کا تعلق 25 اکتوبر 2024 ء کو ہونے والی ممکنہ تبدیلی اور ممکنہ طور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ہے، حکومت اس معاملے کو اپنی بقا سے جوڑ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکو مت نے تاحال مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔
وفاقی وزیر دفاع کہہ چکے ہیں کہ نومبر میں 8 فروری کے انتخابات کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے، ایک سینئر وزیر کا یہ بیان انتخابی دھاندلی سے متعلق پٹیشنز کے مستقبل سے متعلق خوف کی واضح نشاندہی کر رہا ہے، اسی خدشے کے پیش نظر حکومتی حلقوں سے عدلیہ سے متعلق کئی پلانز خبروں اور قیاس آرائیوں کی صورت میں سامنے آئے، کبھی کہا گیا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی جارہی ہے،پھر کہا گیا کہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں بلکہ تمام جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا کر 68 سال کی جا رہی ہے۔
یہ خبریں بھی آئیں کہ حکومت ہائیکورٹ کی طرز پر سپریم کورٹ میں بھی ججز کے پینل میں سے سنیارٹی سے ہٹ کر چیف جسٹس مقرر کرنے کیلئے تگ و دو کر رہی ہے، اگرچہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ فلور آف دی ہاؤس پر اس معاملے پر وضاحت دے چکے ہیں مگر ان کے اپنے ہی ایک کے بعد ایک متضاد بیان نے صورتحال کو مشکوک بنا دیا ہے۔
اسی موقع پر ججز کی تعداد میں اضافے سے متعلق نہ صرف خبریں آئیں بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا ہے، توہین عدالت کے قانون کی منسوخی سے متعلق بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے، بیوروکریٹس اور ججز کی دہری شہریت سے متعلق آئینی ترمیمی بل بھی پیش کر دیا گیا ہے، سو موٹو کے اختیار سے متعلق نہ صرف خبریں سامنے آئیں بلکہ نور عالم خان کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184 تھری میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے کہ عوامی نوعیت کے مقدمے میں کم سے کم نو ججز پر مشتمل بنچ فیصلہ کرے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے متعلق ابہام اور اس کی تاریخوں میں دو سے زائد مرتبہ تبدیلی کئی قیاس آرائیوں کو جنم دے رہی ہے، ان مبینہ حکومتی منصوبوں میں ابھی تک کوئی ٹھوس چیز سامنے نہیں آ سکی سوائے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 21 کرنے کے بل کے، جو کہ واحد اقدام ہے جسے آسانی سے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، اگرچہ ججز کی تعداد بڑھانے کے معاملے پر حکومتی عزائم کچھ اور ہی نظر آتے ہیں مگر اس معاملے پر عدلیہ کی جانب سے کوئی ردعمل شاید اس لئے نہیں آئے گا کیونکہ یہ کیسز کے بڑے بیک لاگ کے خاتمے کیلئے وقت کی ضرورت بھی ہے اور اس معاملے میں آئین کی بجائے صرف قانون میں سادہ اکثریت کے ساتھ ترمیم کرنی ہے۔
اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 59,423ہوگئی ہے جبکہ دو درجن سے زائد ازخود نوٹسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے، ججز کی تعداد بڑھانے کی ٹائمنگ مشکوک سہی مگر یہ بات حقیقت ہے کہ ججز کی تعداد بڑھانا ایک ضرورت بھی ہے یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تعیناتی بھی کی جا چکی ہے۔
حکومت کے باقی پلانز کو آگے بڑھانے میں کئی مشکلات ہیں، اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے، اس سے قبل چیف جسٹس سے منسوب بیان بھی میڈیا میں رپورٹ ہو چکا ہے کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے، حکومتی قانونی ٹیم نے اس کے بعد آئین کے آرٹیکل 175 اے (3) میں ترمیم پر بھی غور کیا کہ ہائیکورٹ کی طرز پر کسی بھی سینئر جج کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کیا جاسکے مگر اس پر پیشرفت نہ ہو سکی۔
اب معاملہ جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تبدیلی کا ہو، آرٹیکل 175 اے(3) میں ترمیم کا یا توہینِ عدالت کے قانون کی منسوخی کا، اس کے اثرات اور نتائج سے حکومت بخوبی آگاہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی واضح قدم نہیں اٹھا سکی۔
توہین عدالت قانون کو منسوخ کرنے کا بِل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے، اگر اس قانون کو منسوخ کر بھی دیا جائے تو آئین میں توہین عدالت کی پاورز عدلیہ کے پاس موجود ہیں، عدلیہ کوئی بھی ایسا قانون بنانے یا منسوخ کرنے کی اجازت کیسے دے گی جو آئینِ پاکستان سے متصادم ہو؟ یہی وجہ ہے کہ توہین عدالت ختم کرنے کا قانون منظور ہو بھی جائے تو حکومت کو اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔
ججز کی دہری شہریت اور نئے چیف جسٹس کے تقرر کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کے معاملے میں آئین خود ایک رکاوٹ ہے جسے تبدیل کرنے کیلئے حکومت کو جہاں نمبرز پورے کرنے ہیں وہیں یہ معاملات عدالت میں بھی چیلنج ہوں گے اور حکومت بھی جانتی ہے کہ عدلیہ اپنے سٹرکچر میں تبدیلیوں سے متعلق حکومت اور پارلیمان کے فیصلوں پر اپنے طریقہ کار کے تحت ردعمل دے سکتی ہے۔
یہ قانون سازی اور آئین سازی کامیاب ہو سکے گی یا نہیں اس سے پہلے یہ بات بڑی واضح ہے کہ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق تحریری تفصیلی فیصلہ ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کرے گا، جسٹس منصور علی شاہ جو اس وقت بیرون ملک ہیں عدالتی چھٹیاں ختم ہونے کے دو روز بعد سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہوں گے اور باقی جج صاحبان بھی عدالتی تعطیلات کے بعد واپس آچکے ہوں گے جن کی عدم دستیابی کے باعث فیصلہ تاخیر کا شکار رہا، عدالتی تعطیلات کے خاتمے کے بعد تمام نظریں اس فیصلے کے آنے پر ہوں گی۔
الیکشن ٹربیونلز کا معاملہ بھی سماعت کیلئے مقرر ہوگا جس میں سٹے آرڈرز کے باعث ملک میں دھاندلی کی شکایات سننے والے ٹربیونلز عملاً غیر فعال ہیں، حکومت کو ذمہ دار حلقوں کی جانب سے یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ 25 اکتوبر کے بعد کی صورتحال کو متنازع بنانے کی بجائے اس پر صورتحال کو واضح کیا جائے ورنہ مستقبل میں ممکنہ تصادم نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔