لاہور: (دنیا نیوز) چونکہ یہ ضروری ہے کہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مزید ترامیم کی جائیں لہٰذا اس کیلئے حسب ذیل طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔
مختصر عنوان: اس ایکٹ کو آئین (چھبیسویں ترمیم) ایکٹ 2024ء کہا جائے گا اور یہ ایکٹ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
نئے آرٹیکل 9 A کا اضافہ: آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آرٹیکل 9 کے بعد درج ذیل نیا آرٹیکل شامل کیا جائے گا۔
A 9 صاف اور صحت مند ماحول: ہر شخص کو صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کا حق حاصل ہوگا۔
(1) آرٹیکل 38 کی ترمیم: آرٹیکل 38 میں ذیل میں بیان کئے گئے پیرا گراف (f) کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا، ربا (سود) کو جنوری 2028ء تک مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔
(2) آرٹیکل 48 کی ترمیم: آرٹیکل 48 میں بیان کئے گئے کلاز (4) کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا۔
1 (4) یہ سوال کہ صدر کو کابینہ یا وزیراعظم کی طرف سے جاری کئے گئے حکم کی جانچ کسی عدالت، ٹربیونل یا دیگر اتھارٹی کے ذریعہ نہیں کی جائے گی۔
(3) آرٹیکل 81 کی ترمیم: آئین کے آرٹیکل 81 میں (الف) پیرا گراف (b) میں ’’سپریم کورٹ ‘‘ کے الفاظ کو’’ سپریم کورٹ، پاکستان کی جوڈیشل کمیشن، سپریم جوڈیشل کونسل ‘‘ کے الفاظ سے تبدیل کیا جائے گا اور (ب) پیرا گراف (d) میں ’’اور ‘‘ کا لفظ ختم کیا جائے گا اور اس کے بعد درج ذیل نیا پیرا گراف شامل کیا جائے گا۔
(ج) قومی اسمبلی، سینیٹ ، صوبائی اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کو منظم کرنے اور کرانے کیلئے درکار رقم۔
(4) آرٹیکل 111 کی ترمیم: آرٹیکل 111 میں ’’ایڈووکیٹ جنرل ‘‘ کے بعد اور آرٹیکل 130 کی کلاز (11) میں مشیر کے الفاظ شامل کئے جائیں گے۔
(5) آرٹیکل 175 A کی ترمیم: آئین کے آرٹیکل 175 A میں (i) کلاز (1) میں ’’شریعت کورٹ ‘‘ کے بعد اور ہائی کورٹس کے ججوں کی کار کردگی کا جائزہ کے الفاظ شامل کئے جائیں گے۔
(ii) کلاز (2) کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا ’’سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کیلئے کمیشن درج ذیل افراد پر مشتمل ہو گا، چیف جسٹس پاکستان صدر، سپریم کورٹ کے تین سینئر جج ر کن، وفاقی وزیر برائے قانون وانصاف رکن، پاکستان کے اٹارنی جنرل رکن، پندرہ سال یا زیادہ تجربے کے ساتھ سپریم کورٹ کے وکیل، جسے پاکستان بار کونسل دو سال کیلئے نامزد کرے رکن، سینیٹ اور قومی اسمبلی سے دو ارا کین، جن میں سے دو حکومتی بینچوں سے اور دو اپوزیشن بینچوں سے ہوں گے، ایک خاتون یا غیر مسلم جو سینیٹ کا رکن بننے کی اہلیت رکھتا ہو، اسے قومی اسمبلی کے سپیکر دو سال کی مدت کیلئے نامزد کریں گے رکن ہوں گے۔
(6) آرٹیکل 177 کی ترمیم: آئین کے آرٹیکل 177 میں کلاز (2) کو مندرجہ ذیل الفاظ سے تبدیل کیا جائے گا۔
(2) کسی کو سپریم کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ پاکستان کا شہری نہ ہو اور (a) وہ کم از کم پانچ سال کے عرصے تک ہائی کورٹ کا جج رہا ہو یا(b) وہ کم از کم پندرہ سال تک ہائی کورٹ کا وکیل رہا ہو اور سپریم کورٹ کا وکیل ہو۔
(7) آرٹیکل 179 کی ترمیم: آرٹیکل 179 میں فل سٹاپ کے بعد درج ذیل جملہ شامل کیا جائے گا، بشر طیکہ چیف جسٹس پاکستان کی مدت تین سال ہوگی یا جب تک کہ وہ استعفیٰ نہ دے، 65 سال کی عمر تک نہ پہنچ جائے یا آئین کے تحت برطرف نہ کیا جائے، جو بھی پہلے ہو۔
(8) آرٹیکل 184 کی ترمیم: 3 آرٹیکل 184 میں کلاز (3) کے آخر میں درج ذیل شق شامل کی جائے گی، بشر طیکہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس کی بنیاد پر کسی درخواست کے مندرجات سے باہر کوئی حکم جاری یا ہدایت نہ دے۔
185(9) کی ترمیم: آرٹیکل 185 کے کلاز (2) کے پیرا گراف (d) میں ’’پچاس ہزار‘‘ کے الفاظ کو ’’ایک ملین‘‘ سے تبدیل کیا جائے گا۔
(10) آرٹیکل 186 A کی تبدیلی: آرٹیکل 186 A کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا:A 186 سپریم کورٹ کا مقدمات منتقل کرنے کا اختیار، اگر سپریم کورٹ یہ مناسب سمجھے تو انصاف کے مفاد میں کسی بھی مقدمے، اپیل، یا دیگر کارروائی کو کسی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ یا خود سپریم کورٹ کو منتقل کر سکتی ہے‘‘۔
(11) آرٹیکل 187 کی ترمیم: آرٹیکل 187 کے کلاز (1) کے آخر میں درج ذیل شق شامل کی جائے گی بشر طیکہ اس کلاز کے تحت کوئی حکم جاری نہ کیا جائے سوائے اس کے کہ یہ سپریم کورٹ کے پاس موجود کسی اختیار کی بنا پر ہو۔
(12)نیا آرٹیکل A191: آرٹیکل 191 کے بعد درج ذیل نیا آرٹیکل شامل کیا جائے گا :191A سپریم کورٹ کی آئینی بنچیں ،(1) سپریم کورٹ میں آئینی بنچیں ہوں گی جن میں سپریم کورٹ کے جج شامل ہوں گے اور ان کی مدت کا تعین پاکستان کی جوڈیشل کمیشن و قتاً فوقتاً کرے گی، بشر طیکہ آئینی بینچوں میں ہر صوبے سے برابر تعداد میں حج شامل کیے جائیں۔
(2) آئینی بینچوں میں سب سے سینئر جج بینچ کی صدارت کریں گے۔(3) سپریم کورٹ کا کوئی بینچ جو آئینی بینچ نہ ہو وہ مندرجہ ذیل دائرہ اختیار استعمال نہیں کرے گی :(a) سپریم کورٹ کی اصل دائرہ اختیار آرٹیکل 184 کے تحت،(b) آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کے کسی فیصلے یا حکم کے خلاف اپیل کا دائرہ اختیار جہاں آئین کی تشریح سے متعلق اہم سوال ہو اور(c) آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کی مشاورتی دائرہ اختیار۔
(13)آرٹیکل 193 کی ترمیم: آرٹیکل 193 کے کلاز (2) کو مندرجہ ذیل الفاظ سے تبدیل کیا جائے گا، (2) کوئی شخص ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ پاکستان کا شہری نہ ہو، اس کی عمر چالیس سال سے کم نہ ہو اور(a) وہ کم از کم دس سال تک ہائی کورٹ کا وکیل رہا ہو یا(b) وہ کم از کم دس سال تک پاکستان میں عدالتی عہدے پر فائز رہا ہو۔
(14) آرٹیکل 199 کی ترمیم: آرٹیکل 199 میں کلاز (1) کے بعد درج ذیل نیا کلاز (A1) شامل کیا جائے گا، تشریح کیلئے ہائی کورٹ کوئی حکم، ہدایت یا اعلان اپنی مرضی سے یا ازخود نوٹس کی بنیاد پر نہیں دے گی، سوائے اس کے جو درخواست میں موجود ہو۔
(15)آرٹیکل 202 A کا اضافہ: آرٹیکل 202 کے بعد درج ذیل نیا آرٹیکل شامل کیا جائے گا، 202A ہائی کورٹ کی آئینی بنچیں۔ (1) ہائی کورٹ میں آئینی بنچیں ہوں گی جن میں ہائی کورٹ کے جج شامل ہوں گے اور ان کی مدت کا تعین پاکستان کی جوڈیشل کمیشن وقتاً فوقتاً کرے گی۔(2) آئینی بینچوں میں سب سے سینئر جج بینچ کے سربراہ ہوں گے۔(3) ہائی کورٹ کی کوئی بینچ جو آئینی بینچ نہ ہو، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت مخصوص دائرہ اختیار استعمال نہیں کرے گی۔
(16) آرٹیکل 203 C کی ترمیم: آرٹیکل 203 C کے کلاز (3) میں ہائی کورٹ کے بعد یا فیڈرل شریعت کورٹ کا ایسا جج جو سپریم کورٹ کا جج بنے کی اہلیت رکھتا ہو کے الفاظ شامل کئے جائیں گے۔
(17) آرٹیکل 203 D کی ترمیم: آرٹیکل 203 D کے کلاز (2) کے آخر میں درج ذیل نیا جملہ شامل کیا جائے گا، مزید یہ کہ آئین (چھبیسویں ترمیم) ایکٹ 2024 کے نفاذ کے بعد دیئے گئے کسی فیصلے کے خلاف اپیل کو بارہ ماہ کے اندر نمٹایا جائے گا، اس کے بعد فیصلہ نافذالعمل ہوگا جب تک کہ سپریم کورٹ اسے معطل نہ کر دے۔
(18)آرٹیکل 208 کی ترمیم: آرٹیکل 208 میں ’’سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ ‘‘ کے الفاظ کو سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے الفاظ سے تبدیل کیا جائے گا۔
(19) آرٹیکل 209 کی تبدیلی: آرٹیکل 209 کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا: پاکستان میں سپریم جوڈیشل کونسل ہو گی جسے اس باب میں ’’کونسل ‘‘کہا جائے گا، کونسل درج ذیل ارکان پر مشتمل ہوگی(a) چیف جسٹس پاکستان، (b) سپریم کورٹ کے دو سب سے سینئر جج اور (c) ہائی کورٹس کے دوسب سے سینئر چیف جسٹس۔
تشریح: اس کلاز کے تحت ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی بین السینارٹی کا تعین ان کی بحیثیت چیف جسٹس تعیناتی کی تاریخ سے کیا جائے گا، اگر دو چیف جسٹس کی تعیناتی کی تاریخ ایک جیسی ہو تو پھر ان کی ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے تقرری کی تاریخ کو ترجیح دی جائے گی۔
(3) اگر کونسل کسی حج کی کار کردگی، صلاحیت، یا رویے کی جانچ کر رہی ہو جو کونسل کارکن ہو یا جو رکن غیر حاضر ہو یا کسی وجہ سے کارروائی میں حصہ نہ لے سکے، تو اس کی جگہ لینے کیلئے درج ذیل ہوگا :(a) اگر چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے جج ہوں تو ان کی جگہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جو (2) کے پیرا گراف (b) میں مذکور جوں کے بعد سینئر ہو۔(b) اگر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوں تو ان کی جگہ دوسرا سینئر ترین ہائی کورٹ کا چیف جسٹس لے گا۔
(4) اگر کونسل کے ارکان کے درمیان کسی معاملے پر اختلاف ہو تو اکثریت کا فیصلہ حاوی ہوگا اور کونسل صدر کو اپنی رائے اکثریت کے مطابق پیش کرے گی، (5) اگر کسی بھی ذریعے سے موصولہ معلومات یا آرٹیکل A175 کے کلاز (19) کے تحت کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر کونسل یا صدر کی رائے ہو کہ (2) سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی حج جسمانی یا ذہنی معذوری کے سبب اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نہیں ہے یا (b) وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں نااہل ہے یا (c) وہ بدعنوانی کا مر تکب ہوا ہے، تو کونسل اپنے طور پر یا کمیشن کی رپورٹ یا صدر کی ہدایت پر معاملے کی جانچ کرے گی۔
(20) آرٹیکل 215 کی ترمیم: آرٹیکل 215 کے کلاز (1) کے بعد درج ذیل نیا جملہ شامل کیا جائے گا: مزید یہ کہ کمشنر اور ایک رکن اپنی مدت کے اختتام کے باوجود اس وقت تک عہدہ سنبھالے رکھیں گے جب تک ان کا جانشین عہدہ سنبھال نہیں لیتا۔
(21) آرٹیکل 229 کی ترمیم: آرٹیکل 229 میں ’’دو پانچویں‘‘ کے الفاظ کو ایک چوتھائی سے تبدیل کیا جائے گا۔
(22)آئین کے آرٹیکل 230 کی ترمیم: آرٹیکل 230 کے کلاز (4) کے آخر میں درج ذیل جملہ شامل کیا جائے گا، مزید یہ کہ حتمی رپورٹ اس کے پیش کئے جانے کے بعد بارہ ماہ کے اندر زیر غور لائی جائے گی۔
(23) آرٹیکل 255 کی ترمیم: آرٹیکل 255 کے کلاز (2) میں ’’اس شخص ‘‘ کے الفاظ کے بعد صوبے میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے اور دیگر تمام معاملات میں پاکستان کے چیف جسٹس کی طرف سے کے الفاظ شامل کئے جائیں گے۔