سپریم کورٹ: 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری

Published On 27 January,2025 09:22 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بنچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک بنچ میں شامل ہیں، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بنچ کا حصہ ہیں۔

عدالت نے فُل کورٹ تشکیل اور عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر بھی نوٹسز جاری کر دیئے۔

سماعت کے آغاز پر وکیل حامد خان اور فیصل صدیقی روسٹرم پر آ گئے، درخواست گزاروں نے آئینی ترمیم کے خلاف فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کی اور وکلا نے مؤقف اپنایا کہ 26 ویں ترمیم کے خلاف فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ کی خواہشات کے مطابق فل کورٹ نہیں بن سکتا، آئینی بنچ میں ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کرتا ہے، جوڈیشل کمیشن نے جن ججز کو آئینی بنچ کیلئے نامزد کیا وہ سب اس بنچ کا حصہ ہیں، ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کرتا ہے جبکہ کیسز مقرر 3 رکنی کمیٹی کرتی ہے، کمیٹی کے سربراہ جسٹس امین الدین ہیں، کمیٹی میں جسٹس محمد علی مظہر اور میں شامل ہوں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکلا سے مکالمہ کیا کہ فل کورٹ کے معاملے پر آپ خود کنفیوژن کا شکار ہیں، آپ اس بنچ کو ہی فل کورٹ سمجھیں۔

وکلا نے استدلال کیا کہ سپریم کورٹ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ایسا ممکن نہیں آئینی معاملہ صرف آئینی بنچ ہی سنے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئینی بنچ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ ہی بنایا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فُل کورٹ کا معاملہ چیف جسٹس کے پاس ہی جا سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے آپ پہلے دن سے ہی لڑنے کے موڈ میں ہیں جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم کسی سے لڑنا نہیں چاہیے۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر کوئی فریق دلائل دینے کو تیار نہیں تو عدالت حکم جاری کرے گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہیں؟ جو اس بنچ کے سامنے بحث نہیں کرنا چاہتا وہ پیچھے بیٹھ جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ تشکیل دینے پر پابندی تو کوئی نہیں ہے جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 26 ویں ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصول کیخلاف ہے، ایڈووکیٹ عزیز بھنڈاری نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کی منظوری کے وقت ایوان نامکمل تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا کہ 26 ویں ترمیم کیلئے کل ممبرز پر ووٹنگ ہوئی یا دستیاب ممبرز پر؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ دستیاب ارکان پر ووٹنگ ہوئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ دستیاب ارکان کا جو ٹوٹل بنا وہ مکمل ایوان کے دوتہائی پر پورا اترتا ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ گنتی انہوں نے پوری ہی کر لی تھی ہم اس کا مسئلہ نہیں اٹھا رہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ایوان میں تمام صوبوں کی نمائندگی مکمل تھی؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ خیبرپختونخوا کی سینیٹ میں نمائندگی مکمل نہیں تھی، خیبرپختونخوا کی حد تک سینیٹ انتخابات رہتے تھے۔

وکیل صلاح الدین نے کہا کہ اختر مینگل کی درخواست میں ترمیم کے حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے، ارکان اسمبلی ووٹ دینے میں کتنے آزاد تھے، اسے بھی مدنظر رکھا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا جس پر وکیل صلاح الدین نے کہا کہ درخواست میں ایک نکتہ مخصوص نشستوں کا بھی اٹھایا گیا ہے، ایوان مکمل ہی نہیں تھا تو ترمیم کیسے کر سکتا تھا؟

وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ عوام کے حقیقی نمائندے ہی آئینی ترمیم کا اختیار رکھتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں انتخابات کیسز کے فیصلوں کا انتظار کریں، پھر آئینی ترمیم کیس سنیں؟ اس طرح تو آئینی ترمیم کا کیس کافی عرصہ لٹکا رہے گا۔

بعدازاں عدالت نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے، سپریم کورٹ نے فل کورٹ تشکیل اور عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 3 ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے مقدمات کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کی عمارت میں خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں، 26 آئینی ترمیم کیخلاف تحریک انصاف سمیت دو درجن کے قریب درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔